احسن اقبال اور سابق سیکریٹری دفاع کے فیض آباد دھرنا کمیشن کو دئے بیان میں نئے انکشافات
سابق وزیرِ داخلہ احسن اقبال نے فیض آباد دھرنا کمیشن کو دیے گئے بیان میں دھرنے سے متعلق نیا انکشاف کیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق احسن اقبال نے دھرنا کمیشن کو دئے گئے بیان میں کہا کہ تحریکِ لبیک کے ساتھ معاہدہ پہلے کیا گیا تھا جو اس وقت کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کو بعد میں دکھایا گیا۔
احسن اقبال نے دھرنا کمیشن کو بیان دیا کہ وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے معاہدہ دیکھا تو اعتراض کیا۔
مجھ پر منشیات کا مقدمہ جنرل باجوہ اور فیض حمید کی مرضی سے بنایا گیا، رانا ثناء اللہ
احسان اقبال کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے وزیر کے استعفے اور فیض حمید کے معاہدے میں نام پر اعتراض کیا تھا۔
احسن اقبال نے بیان میں یہ بھی کہا کہ وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کو بتایا گیا کہ معاہدہ تو ہو چکا، اس پر دستخط بھی ہو گئے، اب اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔
رپورٹ کے مطابق کمیشن میں سابق سیکرٹری داخلہ ارشد مرزا نے بتایا کہ انہیں وزیر اعظم سیکرٹریٹ بلایا گیا تھا جہاں ان کے سامنے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور اس وقت کے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے درمیان سخت تلخی ہوئی تھی۔
شہباز شریف وفاقی وزیر کے ٹی ایل پی کے مطالبے کی روشنی میں استعفے کے حق میں تھے تاہم وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی استعفے کے مخالف تھے۔
سابق سیکرٹری نے بتایا کہ دونوں کے درمیان تلخی اتنی بڑھی کہ وہ شرمندگی کے باعث کمرے سے نکل آئے۔
کمیشن رپورٹ میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت 22 نومبر 2017 کے اس اجلاس کے منٹس بھی موجود ہیں جس میں سول و فوجی قیادت کے سامنے وفاقی وزیر کے استعفے پر تفصیلی بات کرکے فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ استعفا نہیں دیا جانا چاہیے کیونکہ قانون میں جو بھی ترمیم کی گئی تھی وہ وفاقی وزیر نے نہیں بلکہ پارلیمانی کمیٹی نے کی تھی۔ ان میں یہ بھی درج ہے کہ اس استعفے کو ناقابل دفاع قراردیا گیا تھا۔
فیض آباد دھرنا کمیشن رپورٹ میں سابق سیکرٹری دفاع لیفٹینیٹ جنرل ریٹائرڈ اکرام الحق نے بھی کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر فوج ، فضائیہ اور بحریہ کے سربراہوں کو خط لکھ کر ان اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا کہا گیا جو سیاست میں ملوث ہیں، تاہم سپریم کورٹ کے حکم میں ایسے کسی شخص کے شواہد کے ساتھ نشاندہی نہیں کی گئی جو سیاست میں ملوث ہوا، دھرنا منظم کیا یا سال 2018 کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوا لہٰذا کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر سپریم کورٹ کی ہدایت پر عملددرامد ممکن نہیں تھا۔ فوج کے بارے میں ایسی آبزرویشنز کے خلاف اپیل کی گئی۔
سابق سیکرٹری دفاع لیفٹینیٹ جنرل رئٹائرڈ اکرام الحق نے سابق سینئر پولیس افسران اختر علی شاہ ، طاہر عالم اور سینئر سرکاری افسر خوشحال خان پر مشتمل فیض آباد دھرنا کمشن کو دئیے گئے بیان میں کہا کہ فیض حمید نے کوئی قانون توڑا نہ کسی ایس او پی کی خلاف ورزی کی۔ آئی ایس آئی نے حکومت کی ہدایت پر تحریک لبیک کیساتھ مذاکرات میں سہولت کاری کی۔
سابق سیکرٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل اکرام الحق نے کہا کہ فیض آباد دھرنے میں وزارت دفاع کو کوئی مخصوص ٹاسک نہیں سونپا گیا تھا تاہم سپریم کورٹ کی ہدایت پر ازخود نوٹس کیس میں آئی ایس آئی کی طرف سے ایک تفصیلی رپورٹ جمع کرائی گئی اور سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل درآمد کیا گیا۔
سابق سیکرٹری دفاع نے کہا کہ آئی ایس آئی نے حکومت کی ہدایت پر تحریک لبیک کے ساتھ مذاکرات میں سہولت کاری کی، آئی ایس آئی کے ڈی جی سی فیض حمید نے کوئی قانون توڑا نہ کسی ایس او پی کی خلاف ورزی کی، مذاکرات کے باعث مظاہرین نے دھرنا ختم کیا۔
رپورٹ کے مطابق کمیشن نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ سیاسی سرگرمی میں ملوث افراد ، سیاسی جماعت کو مدد دینے والے شعبے یا افراد کیخلاف کاروائی کی جائے اس پر سابق سیکرٹری و ریٹائرڈ لیفٹینینٹ جنرل نے کہا کہ حکومت پاکستان نے سیکرٹری دفاع کےذریعے فوج ، ائیر فورس اور نیوی کے سربراہوں کو ہدایت کی کہ ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی جائے جو اپنے حلف کی خلاف ورزی کرتے پائے گئے۔
اس پر کمیشن نے سابق سیکرٹری دفاع سے پوچھا کہ ایسے افراد کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟
جس پر سابق سیکرٹری دفاع نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں مسلح افواج کے ایسے کسی شخص کی نشاندہی نہیں کی گئی تھی جو دھرنا منظم کرنے ، سال 2018 کے انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے یا انتہاپسندوں کی مالی معاونت کرتے پایا گیا ہو۔ کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر سپریم کورٹ کی ہدایت پر عملددرامد ممکن نہیں تھا۔
اس معاملے کو دیکھنے کے لیے ایک جائزہ پٹیشن دائر کی گئی تھی ، سابق سیکرٹری دفاع نے کہا کہ وزارت دفاع نے عدالت کے حکم پر عمل کیا اور فیصلے کی نقول تمام متعلقہ لوگوں کو فراہم کیں ۔
Comments are closed on this story.