Aaj News

ہفتہ, نومبر 09, 2024  
06 Jumada Al-Awwal 1446  

آئی ایم ایف پاکستان پر روپے کی قدر کم کرنے کیلئے دباؤ نہیں ڈالے گا، وزیرخزانہ کو یقین

پاکستان نے عالمی بونڈز پر ایک ارب ڈالر ادا کردیے، ڈیفالٹ سے بچنے میں بھی کامیاب رہا ہے، محمد اورنگزیب
اپ ڈیٹ 18 اپريل 2024 02:01pm

پاکستان کو امید ہے کہ نئے قرضے کے پیکیج کی خاطر واشنگٹن میں مذاکرات کے دوران عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف سے روپے کی قدر میں کمی کرنے کے حوالے سے دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔

معروف امریکی مالیاتی نشریاتی ادارے بلوم برگ کی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب آئی ایم ایف سے مذاکرات کے حوالے سے پُرامید اور پٗراعتماد ہیں کیونکہ پاکستان نے حال ہی میں بین الاقوامی بونڈز کی میچیورٹی پر ایک ارب ڈالر ادا کیے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان گزشتہ برس ڈیفالٹ سے بچنے میں بھی کامیاب رہا تھا۔

بلوم برگ کے مطابق وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے کہا ہے کہ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ روپے کی قدر بھی مستحکم ہے۔ ایسے میں آئی ایم ایف سے پورے اعتماد کے ساتھ اور پُرامید رہتے ہوئے گفت و شنید کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے اکنامک مینیجرز کہتے ہیں کہ آنے والے برسوں میں پاکستان کی شرحِ نمو 4 فیصد سالانہ تک رہ سکتی ہے۔ معیشت ایک خاص رفتار سے مستحکم ہو رہی ہے۔

حکومتِ پاکستان کا خیال ہے کہ واشنگٹن میں جاری بات چیت کے دوران عالمی مالیاتی فنڈ کی طرف سے نئے قرضے کے اجرا اور معاشی اصلاحات کے نفاذ کے حوالے سے پاکستانی روپے کی قدر گھٹانے کے حوالے سے دباؤ ڈالنے سے گریز کیا جائے گا۔ وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ فی الحال روپے کی قدر گھٹانے کا بظاہر کوئی جواز نہیں۔ پاکستان میں نے آخری بار جنوری 2023 میں کرنسی کی قدر گھٹائی تھی۔

بلوم برگ کے مطابق محمد اونگ زیب نے مذاکرات کے دوران ایک انٹرویو میں بتایا کہ ماضی میں آئی ایم ایف سے قرضے حاصل کرنے کے لیے ایک بنیادی شرط کے طور پر روپے کی قدر میں کمی کی جاتی رہی ہے۔ اس بار ایسا کچھ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے دوران اگر کسی آئٹم کو وائلڈ کارڈ انٹری کہا جاسکتا ہے تو وہ ہے خام تیل کی قیمت۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ مختلف بنیادی صنعتوں کے ساتھ ساتھ نئی حکومت زرعی شعبے اور آئی ٹی سیکٹر کو فروغ دے کر معیشت کو مستحکم کرنا چاہتی ہے۔ آنے والے برسوں میں شرحِ نمو 4 فیصد تک جاسکتی ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں پاکستان ایکسٹینڈیڈ فنڈ فیسیلیٹی کے تحت اور آئی ایم ایف کے نئے رییلینس اینڈ سسٹینیبلٹی ٹرسٹ کے ذریعے قرضے کا نیا پیکیج چاہتا ہے۔ یہ ٹرسٹ کم آمدنی والے اور سیلاب جیسی کیفیت سے معاشی مشکلات کا آسانی سے شکار ہو جانے والے ممالک کے لیے تشکیل دیا گیا ہے۔

محمد اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کم کرنا اور شرحِ نمو کو خاطر خواہ حد تک بلند کرنا ہے۔ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر کی سطح پر ہیں جبکہ اِسے جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے دوران معیشتی استحکام کے لیے اِس سے تین گنا یعنی کم و بیش 24 ارب ڈالر کی ضرورت پڑے گی۔ حکومت سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی بھی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔

آئی ایم ایف کا مشن مئی میں پاکستان آئے گا اور امید ہے کہ جون کے آخر یا جولائی کے اوائل تک اسٹاف لیول سمجھوتہ ہو جائے گا۔ محمد اورنگ زیب نے یہ نہیں بتایا کہ پاکستان اس بار کتنے کا قرضہ مانگ رہا ہے۔ بلوم برگ نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ پاکستان کو 6 ارب ڈالر کے قرضے کی ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف سے نیا قرضہ ملنے کی صورت میں پاکستان کے ڈالر بونڈز اور اسٹاک مارکیٹ کو استحکام ملے گا۔ گزشتہ جولائی میں موجودہ پیکیج شروع ہونے سے اب تک پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ اور ڈالر بونڈز سے سرمایہ کاروں کو اچھا منافع ملا ہے۔ امید ہے کہ آئی ایم ایف کا ایگزیکٹیو بورڈ رواں ماہ میں قرضے کے موجود پیکیج کے تحت باقی رہنے والے 3 ارب ڈالر بھی پاکستان کو دے دے گا۔

آئی ایم ایف قرضے ادا کرنے کے قابل ہونے میں مدد دینے کے لیے ٹیکس نیٹ کی توسیع پر زور دیتا رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس نے انرجی سیکٹر کو بھی مضبوط بنانے پر زور دیا ہے۔ توانائی کے نرخ اور ٹیکس نیٹ میں توسیع کی ضرورت کئی سال سے ہے مگر حکومت عوامی ردِعمل سے بچنے کے لیے ایسے فیصلے کرنے سے گریز کرتی رہی ہے۔ پاکستان نے چند برسوں کے دوران آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بجلی کے نرخ بڑھانے کے ساتھ ساتھ اضافی ٹیکس بھی وصول کیے ہیں۔

NEW PACKAGE

INTERNATINAL MONETARY FUND

TALKS IN WASHINGTON

NO DEVALUATION

CONFIDENCE AND HOPE