افغان سرزمین پر صحافت ایک مذاق بن کر رہ گئی
اگست 2021 میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان میڈیا کو مشکلات کا سامنا ہے اور صحافی برادری کے لیے معلومات کی فراہمی ایک کٹھن مرحلہ بن چکا ہے۔
افغان سرزمین پر صحافت ایک مذاق بن کر رہ گئی اور شعبہ صحافت افغانستان میں ایک چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کی جانب سے صحافتی تقاضوں کو پامال کیا جا رہا ہے۔
بی بی سی کے مطابق افغان حکومت کی جانب سے ظلم و بربریت کے خلاف بولنے والے کئی صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے، سی بی سی نیوز نے بھی بتایا کہ یو این ایچ سی آر کے تحت کام کرنے والے دو غیر ملکی صحافیوں کو طالبان حکومت نے حراست میں لے لیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق صحافیوں کو طالبان قیادت پر تنقیدی مواد شائع کرنے کی صورت میں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اگست 2021 سے پہلے افغانستان میں شائع ہونے والے 90 سے زائد اخبارات میں سے صرف 11 فعال ہیں۔
طلوع نیوز کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد 270 سے زائد میڈیا تنظیموں نے کام معطل کر دیا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 156ویں نمبر تک پہنچ گیا، مارچ 2022 میں وائس آف امریکہ کی نشریات پر بھی پابندی لگائی گئی، سال 2022 میں چھ ماہ میں ہی آزادی صحافت کے 75 سے زائد واقعات درج ہوئے، جن میں 33 صحافیوں کی گرفتاریاں اور 42 میڈیا اہلکاروں کو حراساں کرنے کے واقعات شامل ہیں۔
بی بی سی کو بھی مواد نشر نہ کرنے کے حکم کے بعد اس کی پروگرامنگ بند کر دی گئی، 2023 میں افغان طالبان نے پاکستانی صحافی انس ملک کو اغواء کر کے شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔
اقوام متحدہ کے مطابق اپریل 2023 کے بعد سے خواتین صحافیوں پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے، سال 2023 میں افغانستان میں صحافیوں کے خلاف تشدد اور ان کی حراست کے 108 واقعات درج ہوئے۔ 2023 میں یونیسکو نے افغانستان میں متعدد صحافیوں کی ہلاکت پر رپورٹ شائع کی۔
طلوع نیوز کے مطابق افغانستان میں 50 فیصد سے زائد میڈیا چینلز بند ہو گئے۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے افغانستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کا خطرناک ترین ملک قرار دے دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹی وی چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز کی تعداد میں پچاس فیصد سے زائد کی کمی ہوئی ہے جبکہ میڈیا ورکرز کی کل تعداد میں نصف سے زیادہ کمی آئی ہے،خواتین صحافیوں کے ایک چوتھائی حصے میں سے صرف 15 فیصد باقی ہے۔
عالمی اداروں کو چاہیے کہ افغانستان میں ذرائع ابلاغ کے استحصال پر نوٹس لیں۔
Comments are closed on this story.