Aaj News

اتوار, دسمبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Akhirah 1446  

’دو ٹانگوں پر لیکر گئے ایک پر واپس آیا ہوں‘، اسرائیل نے غزہ سے اٹھائے 150 قیدی رہا کردئے

'اسرائیلی اغوا کاروں نے بہت مارا پیٹا'، قیدی بدترین حالت میں ہسپتال میں داخل
شائع 16 اپريل 2024 03:33pm
علامتی تصویر: روئٹرز
علامتی تصویر: روئٹرز

اسرائیل نے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کے دوران حراست میں لیے گئے 150 فلسطینیوں کو رہا کردیا ہے، تاہم، رہائی پانے والے لوگوں نے الزام لگایا کہ ان کے ساتھ قید کے دوران ظالمانہ رویہ اختیار کیا گیا۔

فلسطین کے سرحدی حکام نے ”روئٹرز“ کو بتایا کہ حراست میں لیے گئے افراد، جن میں فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی (PRCS) کے دو ارکان بھی شامل ہیں، انہیں 50 دنوں سے حراست میں رکھا گیا تھا، اور پیر کو جنوبی غزہ میں اسرائیل کے زیر کنٹرول کریم شالوم کراسنگ کے ذریعے رہا کیا گیا۔

حکام نے بتایا کہ رہائی پانے والے متعدد افراد نے اسرائیلی جیلوں میں بدسلوکی اور ناروا سلوک کی شکایت کی اور ان کی حالت کے بدترین پیش نظر انہیں ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا۔

رہائی پانے والوں میں سے کئی کا کہنا تھا کہ ان سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تھی کہ آیا ان کا غزہ پر کنٹرول کرنے والے عسکریت پسند گروپ حماس سے کوئی تعلق تھا۔

سفیان ابو صلاح نامی ایک شخص نے ہسپتال سے فون پر روئٹز کو بتایا کہ ’میں دو ٹانگوں کے ساتھ جیل گیا اور ایک ٹانگ کے ساتھ واپس آیا‘۔

ابو صلاح نے کہا کہ، ’میری ٹانگ میں سوزش تھی اور انہوں نے (اسرائیلیوں) نے مجھے ہسپتال لے جانے سے انکار کر دیا، ایک ہفتے بعد سوزش پھیل گئی اور گینگرین ہوگئی۔ وہ مجھے ہسپتال لے گئے جہاں میری سرجری ہوئی‘۔

ابو صلاح نے مزید کہا کہ انہیں لے جانے والے اسرائیلی اغوا کاروں نے بہت مارا پیٹا۔

خان یونس کے مشرق میں ابسان قصبے کے رہائشی 42 سالہ ابو صلاح نے روئٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے فروری کے آخر میں ایک اسکول سے انہیں گرفتار کیا جہاں وہ اور ان کے خاندان نے پناہ لی تھی۔

چار بچوں کے والد ابو صلاح نے کہا کہ انہیں اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ انہیں کہاں رکھا گیا ہے، لیکن یہ ایک فوجی کیمپ کی طرح لگتا تھا نہ کہ جیل۔

فلسطینی قیدیوں کی ایسوسی ایشن کے مطابق غزہ اور مغربی کنارے دونوں سے کم از کم 9,100 فلسطینی اسرائیل میں زیر حراست ہیں۔ اس اعداد و شمار میں 7 اکتوبر کی جنگ کے آغاز سے غزہ میں گرفتار ہونے والے افراد شامل نہیں ہیں کیونکہ اسرائیل نے اپنی جارحیت سے متعلق تعداد ظاہر نہیں کی ہے۔

اسرائیلی فوج نے روئٹرز کو ایک بیان میں کہا کہ وہ اسرائیلی اور بین الاقوامی قانون کے مطابق کام کرتی ہے اور جن لوگوں کو وہ گرفتار کرتا ہے انہیں خوراک، پانی، ادویات اور مناسب لباس تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔

فلسطینی اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپوں نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی جیلوں میں بدسلوکی کے دعووں سے آگاہ ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ کے قیدیوں کے بارے میں معلومات ظاہر کرنے سے انکار کرتا رہا ہے، بشمول یہ کہ اس نے کتنے لوگوں کو اور کہاں رکھا ہے۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے پیر کو روئٹرز کو بتایا کہ وہ اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی جیلوں میں قید کسی بھی فلسطینی قیدی سے ملنے کے قابل نہیں ہیں، لیکن ہم میڈیا رپورٹس سے آگاہ ہیں کہ اس کی شرح بہت زیادہ ہے۔

غزہ کی سول ایمرجنسی سروس نے کہا کہ پیر کو رہا کیے گئے اسیروں کو ’مختلف قسم کے بدسلوکی اور تشدد‘ کا نشانہ بنایا گیا تھا اور بہت سے لوگوں کو ان کی رہائی کے بعد ہسپتالوں میں داخل کرایا گیا تھا۔

Israel Release Prisoners

Israel Gaza War