ایرانی میزائل سعودی عرب نے بھی گرائے، اسرائیلی اخبار کا دعویٰ
اسرائیلی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ جہاں امریکہ، برطانیہ، فرانس اور اردن نے اسرائیل پر داغے گئے ایرانی میزائلوں کو روکا وہیں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل کی حملہ ناکام بنانے میں مدد کی۔
اسرائیلی اخبار ”ٹائمز آف اسرائیل“ نے امریکی اخبار ”وال اسٹریٹ جرنل“ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ کئی خلیجی ریاستوں نے جن میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی شامل ہیں، اسرائیل پر حملے کے ایرانی منصوبوں کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات فراہم کیں، ان معلومات نے حملے کی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری جانب ایک اور اسرائیلی اخبار ”یروشلم پوسٹ“ نے سعودی شاہی خاندان کے قریبی ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ان ملک کے پاس موجود دفاعی نظام نے اپنی فضائی حدود سے گزرنے والی مشکوک فضائی اشیاء خودکار طریقے سے روکا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایرانی حملہ روکنے کیلئے اسرائیل کے ساتھ تعاون کی قیادت امریکہ نے کی۔
ہفتے اور اتوار کی رات ایران نے اسرائیل پر 300 سے زائد ڈرونز کے ساتھ ساتھ بیلسٹک اور کروز میزائل داغے۔ جن میں سے زیادہ تر اسرائیل کے اتحادیوں نے مار گرائے جبکہ چند ایک جو اسرائیل میں گرے وہ کوئی خاطر خواہ نقصان نہ پہنچا سکے۔
جرنل کی رپورٹ نے پہلی بار پورے خطے میں پھیلی ہوئی مشترکہ سرگرمیوں کے دائرہ کار کا انکشاف کیا، جس کے مطابق اسرائیل کو بچانے کی اس کارروائی میں وہ ممالک بھی شامل رہے جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اردن نے اپنی فضائی حدود سے گزرنے والے ایرانی ڈرونز کو گرانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
رپورٹ میں حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ اتنے زیادہ ڈرونز اور میزائلوں کو روکنے میں کامیابی عرب ممالک کو ایرانی منصوبے کے بارے میں انٹیلی جنس معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی فضائی حدود کے استعمال اور ریڈار سے باخبر رہنے کی سہولت فراہم کرنے کی وجہ سے ممکن ہوئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ کئی مواقع پر عرب افواج نے خطرات کو روکنے میں فعال کردار ادا کیا اور ’مدد کے لیے اپنی فوجیں فراہم کیں‘، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردن ایسا کرنے والا واحد عرب ملک نہیں تھا۔
رپورٹ کے مطابق، سعودی عرب اور ’دیگر اہم عرب حکومتوں‘ کی طرف سے ادا کیے گئے کردار پر مکمل خاموشی اختیار کی جا رہی ہے۔
سعودی اور مصری حکام نے جرنل کو بتایا کہ یکم اپریل کے حملے اور ایران کی جانب سے جوابی کارروائی کی دھمکیوں کے بعد، امریکی حکام نے عرب حکومتوں پر ایران کے انتقامی منصوبوں اور حملے کو روکنے میں مدد کے لیے انٹیلی جنس کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کیا۔
شروع میں، کچھ عرب حکومتیں ہچکچاہٹ کا شکار تھیں، اس ڈر سے کہ اسرائیل کی مدد کرنے سے وہ ایران کے ساتھ براہ راست تنازعہ میں آجائیں گی یا جوابی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس کے علاوہ، کچھ لوگ اس مدد کو غزہ میں حماس کے خلاف اسرائیل کی مدد کے طور پر دیکھے جانے کے بارے میں محتاط تھے۔
تاہم، بالآخر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے نجی طور پر معلومات فراہم کرنے پر اتفاق کیا جبکہ اردن نے امریکہ اور ”دوسرے ممالک کے جنگی طیاروں“ کو اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دینے پر اتفاق کیا۔
حکام کے مطابق اردن نے یہ بھی کہا کہ وہ میزائلوں اور ڈرونز کو روکنے کے لیے اپنے جیٹ طیارے استعمال کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ حملے سے دو دن قبل ایرانی حکام نے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کو اسرائیل کے خلاف جوابی کارروائی کی منصوبہ بندی اور اس کے وقت کے بارے میں بتایا تھا تاکہ وہ ممالک اپنی فضائی حدود کو محفوظ بنا سکیں۔ یہ معلومات امریکہ کو دی گئیں، جس میں امریکہ اور اسرائیل کے دفاعی منصوبوں کی اہم تفصیلات فراہم کی گئیں۔
ایک سینئر اسرائیلی اہلکار نے جرنل کو بتایا کہ جیسے ہی حملے کا وقت قریب آیا، واشنگٹن نے علاقے میں طیاروں اور میزائلوں کے دفاعی نظام کی تعیناتی اور اسرائیل اور عرب حکومتوں کے درمیان دفاع کو مربوط کرنے کا حکم دیا۔
رپورٹ کے مطابق قطر میں امریکی آپریشن سینٹر اور خلیج فارس کے ممالک میں ریڈاروں کے ذریعے میزائلوں اور ڈرونز کو فوری طور پر ٹریک کیا گیا۔ یہ معلومات اردن اور دیگر ممالک کے اوپر فضا میں موجود ”کئی ممالک“ کے لڑاکا طیاروں کے ساتھ ساتھ جنگی جہازوں اور اسرائیل کے میزائل ڈیفنس یونٹس تک پہنچائی گئیں۔
حکام نے بتایا کہ جیسے ہی ڈرون رینج کے اندر آئے انہیں زیادہ تر اسرائیلی اور امریکی افواج نے مار گرایا، کچھ کو اردنی، برطانوی اور فرانسیسی جنگی طیاروں نے مارا۔
ایک امریکی اہلکار نے جریدے کو بتایا کہ حملے کے دوران ایک ایسا وقت بھی آیا تھا جب 100 سے زائد ایرانی بیلسٹک میزائل بیک وقت فضا میں تھے اور اسرائیل کی طرف بڑھ رہے تھے، لیکن اکثریت کو اسرائیل کے فضائی دفاعی نظام نے اپنی سرحدوں کے باہر ہی مار گرایا۔
امریکی حکام نے یہ بھی نوٹ کیا کہ آدھے ایرانی بیلسٹک میزائل یا تو لانچ ہونے میں ناکام رہے یا اسرائیل کے قریب کریش لینڈ کر گئے۔
دو امریکی حکام نے اے بی سی نیوز کو اس اعدادوشمار کی تصدیق کی۔
اس رپورٹ کے مطابق ، پانچ میزائلوں نے نیواتیم ایئر بیس کو معمولی نقصان پہنچایا، جس میں ایک C-130 ٹرانسپورٹ ہوائی جہاز اور خالی پڑی اسٹوریج کی سہولیات متاثر ہوئیں۔
اسرائیل نے کہا کہ اس کے علاوہ ایک ٹیکسی وے کو بھی معمولی نقصان پہنچا ہے۔
جرنل نے رپورٹ کیا کہ امریکہ نے آپریشن میں 70 ڈرونز استعمال کئے، جبکہ دو گائیڈڈ میزائل ڈسٹرائرز نے چھ میزائلوں کو روکا۔
یک امریکی اہلکار نے اخبار کو بتایا کہ عراق کے اربیل کے قریب امریکی پیٹریاٹ سسٹم نے بھی ایک بیلسٹک میزائل کو نشانہ بنایا۔
Comments are closed on this story.