مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا خطرہ، جرمنی و روس کا تحمل برتنے کا مشورہ
اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ سے ہٹ کر بھی لڑنے کی تیاری کر رہا ہے اور کسی بھی صورتِ حال کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ یہ بات انہوں نے ایرانی کی طرف سے ممکنہ حملے سے متعلق قیاس آرائیاں پھیلنے پر کہی ہے۔
روس اور جرمنی نے فریقین سے کہا ہے کہ وہ ضبط و تحمل سے کام لیں تاکہ غزہ میں جاری لڑائی باہر نکل کر پورے خطے کی جنگ میں تبدیل نہ ہو۔ یہ مشورہ امریکی صدر کے اس بیان کے بعد دیا گیا ہے کہ اسرائیل پر حملے کی صورت میں امریکا اُس کے دفاع کے لیے جو بھی کرنا پڑا، کرے گا۔
مشرقِ وسطیٰ میں کسی بڑی جنگ کے چِھڑنے کا امکان توانا تر ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ ان کا ملک غزہ سے ہٹ کر کئی علاقوں میں مختلف النوع صورتِ حال سے نمٹنے کی تیاری کر رہا ہے۔ ایک بیان میں بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل اور امریکا کے مفادات پر ایک ساتھ حملہ ہوسکتا ہے اس لیے مشترکہ دفاعی تیاریاں کی جارہی ہیں۔
دنیا بھر کے میڈیا آؤٹ لیٹس میں یہ خبر گرم ہے کہ ایران نے یکم اپریل کو دمشق میں اپنے قونصل خانے پر حملے میں سینیر ملٹری کمانڈرز کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے مین لینڈ اسرائیل کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور کسی بھی وقت جوابی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کہہ چکے ہیں کہ اسرائیل پر حملہ اب ناگزیر ہوچکا ہے۔
جمعرات کو جرمنی ایئر لائن لُفتھنزا نے ایرانی دارالحکومت تہران کے لیے پروازوں کے تعطل میں 13 اپریل تک توسیع کا اعلان کیا۔ جرمن وزیرِ خارجہ اینالینا بیئربوک کا کہنا ہے کہ انہوںنے ایرانی ہم منصب سے سے خطے کی صورتِ حال پر بات کی ہے۔
روس نے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک سے کہا ہے کہ وہ بگڑتی ہوئی صورتِ حال کے پیشِ نظر ضبط و تحمل سے کام لیں۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ اب لازم ہوچکا ہے کہ تمام فریق تحمل کا مظاہرہ کریں تاکہ خطے کی صورتِ حال کو کسی بڑی جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا جاسکے۔
Comments are closed on this story.