وہ ایسٹروناٹ جو خلا سے واپس آیا تو اس کا ملک زمین سے غائب ہوچکا تھا
1991 میں ایک تجربہ کار ایسٹروناٹ (خلاباز) سرگئی کریکالیف ایک معمول کے مشن کے مطابق میر خلائی اسٹیشن کے لیے روانہ ہوئے، لیکن سرگئی اس بات سے بے خبر تھے کہ جب وہ خلا میں پہنچیں گے تو زمین پر ان کا پورا ملک غائب ہوچکا ہوگا۔
سرگئی کا مشن اتفاقیہ طور پر ایسے وقت میں لانچ ہوا جب سوویت یونین ٹوٹنے کے قریب پہنچ گیا تھا۔
ججب سرگئی تحقیق اور اسٹیشن کے کاموں پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے تو ان کی آبائی قوم سیاسی اور اقتصادی بحران سے دوچار تھی۔
اس اتھل پتھل کے نتیجہ میں سرگئی کی واپسی میں تاخیر بھی ہوئی۔
فنڈنگ کی رکاوٹوں اور کاسموناٹ تبدیلی پروگرام میں خلل کی وجہ سے انہوں نے خلا میں غیر ارادی طور پر 10 ماہ گزارے، جو کہ ایک ریکارڈ کارنامہ ہے۔
جبکہ خلا باز نے میر اسٹیشن پر اپنا معمول برقرار رکھا، لیکن اس دوران اس کی واپسی کے حوالے سے غیر یقینی صورتحال بہت بڑھ گئی۔
ان کے اس توسیعی قیام نے ان کیلئے کئی چیلنجز پیش کیے۔ مائیکرو گریوٹی نے سرگئی کی جسمانی صحت کو نقصان پہنچایا، جس کے نتیجے میں ان کے عضلات اور ہڈیاں کمزور ہو گئیں۔
بدلتی ہوئی زمین سے سماجی تنہائی اور مواصلات میں خلل نے نفسیاتی دباؤ میں اضافہ کیا۔
آخر کار، 10 ماہ اور 5000 زمینی چکر لگانے کے بعد، سرگئی کریکالیف ایک بالکل مختلف دنیا میں واپس آئے۔
جب انہوں نے زمین پر قدم رکھا تو سوویت یونین ختم ہوچکا تھا اور اس کی جگہ نئی آزاد ریاستیں لے چکی تھیں۔
ان کیلئے خود کو زمین کی کشش ثقل کے مطابق دوبارہ ڈھالنا مشکل ثابت ہوا، جس کے لیے وسیع جسمانی علاج کی ضرورت تھی۔
انہوں نے جو سماجی اور سیاسی منظرنامہ پیچھے چھوڑا تھا وہ بھی غائب ہو گیا تھا۔
سرگئی کریکالیف کا خلائی مشن صرف سائنسی تحقیق کے بارے میں نہیں تھا، بلکہ وہ سیاسی افراتفری کے اس دور میں انسانی تعلق کی عالمی علامت بن گئے تھے۔
بی بی سی کے مطابق خلائی تاریخ دان کیتھلین لیوس نے کہا کہ خلائی اسٹیشن کے ریڈیو کے ذریعے کریکالیف کی زمین پر موجود لوگوں کے ساتھ گفتگو نے ایک خاص تعلق کو فروغ دیا۔
لیوس نے کہا کہ ان ریڈیو چیٹس نے دنیا بھر میں غیر رسمی رابطوں کا ایک نیٹ ورک بنایا، جس سے کریکالیف اپنے توسیعی مشن کے غیر معمولی حالات کے باوجود ایک مقبول شخصیت بن گئے۔
Comments are closed on this story.