پاکستان کیس اسٹڈی کا موضوع بن گیا، دنیا ہماری خرابیوں سے سیکھنے لگی
سیاسی و معاشی عدم استحکام اور اس کے نتیجے میں امن و سلامتی کو لاحق حقیقی خطرات نے پاکستان کو اب اعلیٰ تعلیم کے اداروں کے لیے نصابی موضوع بنادیا ہے۔ دنیا بھر میں بزنس کے معیاری اداروں میں کمزور اور تباہ حال معیشتوں کو پڑھایا جاتا ہے تاکہ طلبہ معیشتی خرابیوں کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور مستقبل میں اس حوالے سے اپنے آپ کو بہتری کا سوچنے کے لیے تیار کریں۔
امریکا کے ہارورڈ بزنس اسکول میں پاکستان کو بھی معیشتی خرابیوں کے حوالے سے ایک وقیع موضوع کی حیثیت سے پڑھایا جارہا ہے۔ یہ کیس اسٹڈی مستقبل کے بزنس لیڈرز اور مینیجرز کے لیے ہے۔
اس کیس اسٹڈی کا عنوان ہے ’پاکستان ایٹ 75 : وین وِل دی ’نازک موڑ‘ اینڈ؟ اس عنوان کے تحت بزنس، گورنمنٹ اور بین الاقوامی معیشت کے پروفیسر البرٹو کیویلو موسمِ بہار کا سیمیسٹر مکمل کروا رہے ہیں۔ یہ کیس اسٹڈی اس وقت واٹس ایپ گروپس میں خوب گردش کر رہی ہے۔
یہ کیس اسٹڈی ہارورڈ بزنس اسکول کے پروفیسر میگ رِتھمائر، سالار اے شیخ اور ہارورڈ کینیڈی اسکول کے پوسٹ ڈاکٹورل فیلو ہونگ ژھینگ نے تیار کی ہے۔
بزنس اسکولز میں کیس اسٹڈیز تدریس کا ایک معروف طریقہ ہے۔ پروفیسرز اپنے طلبہ کو حقیقی زندگی کے حوالے سے کاروباری معاملات سمجھانے اور بہت کچھ سکھانے کے لیے کیس اسٹڈیز کو خوب بروئے کار لاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اِن مسائل کو حل کرنے کے طریقے سکھانے پر بھی توجہ دی جاتی ہے۔
پاکستان میں سیاسی اور معاشی دونوں ہی طرح کی گفتگو اور تجزیوں میں یہ بات بہ کثرت کہی جاتی رہی ہے کہ ملک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ نازک موڑ کی بات اس قدر تواتر سے کہی جاتی رہی ہے کہ اب یہ تاثیر کھوچکی ہے۔
روزنامہ بزنس ریکارڈ نے اس کیس اسٹڈی کے اقتباسات یا اِسے مکمل طور پر شائع کرنے کی اجازت کے لیے ہارورڈ بزنس پبلشنگ اسپیشل پرمیشنز ٹیم سے رابطہ کیا تو اُس نے ای میل کے ذریعے یہ استدعا مسترد کردی۔
2024 کی ایف ٹی رینکنگ میں ہارورڈ بزنس اسکول کا ایم بی اے پروگرام گیارہویں نمبر پر ہے۔
Comments are closed on this story.