وہ کون تھا جس نے نواز شریف کو الیکشن کے بعد حکومت کا انجام بتا دیا تھا؟ حامد میر کے بڑے انکشافات
سینئیر صحافی، اینکر پرسن اور تجزیہ کار حامد میر کا کہنا ہے کہ رمضان میں صرف کھانا پینا نہیں چھوڑنا ہوتا، اس رمضان میں نے دیکھا کہ تمام سیاست دان یا تو جھوٹ بول رہے تھے، یا سچ نہیں بول رہے تھے یا خاموش تھے۔
آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے کہا کہ اس رمضان میں کچھ جج صاحبان شکایت کر رہے تھے اور خط لکھ رہے تھے، تو کچھ ان کی شکایت کو انڈر مائن (کمزور) کر رہے تھے، کچھ صحافی سچ بولنے کی کوشش کر رہے تھے تو کچھ پتا نہیں کس کے توسط سے کہہ رہے تھے کہ یہ جھوٹے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک میں جو ذخیرہ اندوزی اور مہنگائی ہوئی تو مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں کہ ہم بحیثیت قوم ایک کرپٹ معاشرہ بن چکے ہیں۔
سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام ہوگا، لیکن عمران خان کے دور میں تو سب کچھ ٹھیک تھا پھر کیوں معاشی استحکام نہیں آپایا؟
اس سوال کے جواب میں حامد میر نے کہا کہ میں نے اپنے کالم میں لکھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف کوئی ریفرنس آنے والا ہے، تو اس پر مرحوم نعیم الحق نے مجھے بلا کر کہا کہ آپ خان صاحب کو جاکر سمجھائیں کہ یہ نہیں ہونا چاہئیے، نعیم الحق ان کے خیرخواہ تھے۔ میں گیا تو خان صاحب نے کہا کہ ’یار تمہیں کس نے کہا کہ میں کوئی ریفرنس فائل کرنے لگا ہوں، میں کوئی اتنا فارغ ہوں کہ جوڈیشری سے لڑائی کروں؟ میں تو کوئی ریفرنس فائل نہیں کر رہا‘۔ اور تین دن کے بعد ریفرنس فائل کردیا۔
انہوں نے کہا کہ ’خان صاحب بھی ڈکٹیشن لے رہے تھے اور اس ڈکٹیشن کے نتیجے میں اِن اسٹیبلٹی (عدم استحکام) پھیلی، اور اب ابھی کچھ لوگ ڈکٹیشن لے رہے ہیں، تو ڈکٹیشن کے نتیجے میں اسٹیبلٹی کبھی نہیں آتی‘۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججز کے خطوط کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھ پر حملہ ہوا تو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں کمیشن بنا اور آج دس سال گزرنے کے باوجود اس کی رپورٹ نہیں آئی، تو موجودہ چیف جسٹس کیلئے یہ بہت بڑا چیلنج ہے، کیونکہ معاملہ یہاں زیادہ سنگین ہے اور ہائی کورٹ کے چھ جج شکایت کنندہ ہیں، پتا نہیں جج صاحب نے کسی کو عدالت میں طلب کیا تو وہ آئے گا یا نہیں، لیکن ماضی کا جو تجربہ ہے یہ چیف جسٹس آف پاکستان کیلئے بڑا مشکل ہوگا۔
میاں نواز شریف نے سینیٹ الیکشن میں رانا محمود الحسن کو یہ کیوں کہا کہ آپ کو بددلی سے ووٹ دے رہا ہوں؟ اس سوال کے جواب میں حامد میر نے کہا کہ ان کا جو دل ٹوٹا ہوا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاستدان کی سب سے بڑی سپورٹ پبلک اسٹرینتھ (عوامی طاقت) ہوتی ہے، جب سیاستدان کو لگے کہ وہ پبلک سپورٹ جب میں جیل میں تھا یا باہر بھیجا گیا میرے ساتھ تھی، وہ اب نہیں ہے تو دل تو ٹوٹتا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نواز شریف کی پارٹی ’ایسے لوگوں کو سینیٹر بناتی ہے جو ان کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کرتے‘۔ تو آپ کو یقین ہے کہ یہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے؟
حامد میر نے کہا کہ ’مجھے پتا ہے کہ رانا محمود الحسن نے بھی کہیں کہا کہ مجھے بھی بڑی تکلیف ہوئی ہے کہ نواز شریف سے ووٹ لیا ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں حامد میر نے کہا کہ خواجہ سعد رفیق کو الیکشن سے پہلے ہی موجودہ حالات کا علم تھا، ’خواجہ سعد رفیق آٹھ فروری کا الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہیں تھے، انہوں نے پارٹی کو بتا دیا کہ جی میں نے یہ الیکشن نہیں لڑنا‘۔
حامد میر نے مزید کہا کہ ’خواجہ سعد رفیق سے جب پوچھا گیا کہ آپ کیوں الیکشن لڑنا نہیں چاہتے تو انہوں نے کہا کہ مجھے دیوار پر لکھا نظر آرہا ہے، آپ کی حکومت تو آجائے گی لیکن آپ کو بہت ذلیل کیا جائے گا، لیکن میں اس لیے الیکشن نہیں لڑنا چاہتا کیونکہ یہ جو میری کانسٹیٹوینسی (حلقہ) ہے، یہ جو ڈی لمیٹیشنز (حلقہ بندیاں) ہوئی ہیں ، اس کو اس طریقے سے کاٹا اور چھانٹا گیا ہے اس طریقے سے توڑا پھوڑا گیا ہے کہ کسی نے بہت سوچ سمجھ کر کوشش کی ہے کہ میں یہاں سے نہ جیتوں، یہ صرف میرے ساتھ نہیں ہوا اور بھی حلقوں میں ہوا ہے‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ’پی ٹی آئی پروپیگنڈا کر رہی ہے کہ ہم لاڈلے بن چکے ہیں، لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم پٹ پٹ کے مر گئے ہیں، چیخ چیخ کر مر گئے ہیں لیکن ہماری حلقے کی جو ڈی لمیٹیشن ہوئی ہے وہ ہماری توقعات کے مطابق نہیں ہے۔ ہماری مرضی کے خلاف ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے خلاف سازش ہوئی ہے، تو مجھے اس ڈی لمیٹیشن میں صاف نظر آرہا ہے کہ ہماری پارٹی کے ساتھ کیا ہورہا ہے‘۔
حامد میر کے مطابق جب سعد رفیق سے پوچھا گیا کہ کیا ہونے والا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ ’اگر آپ کو یہ نظر آرہا ہے کہ آپ کو یہ اکثریت ملے گی تو آپ کو اکثریت نہیں ملے گی، آپ کو حکومت دے دی جائے گی لیکن آپ کو اکثریت نہیں ملے گی‘۔
حامد میر نے مزید بتایا کہ اس کے بعد نواز شریف نے ان کے بھائی سلمان رفیق سے دباؤ ڈلوایا تو انہوں نے الیکشن لڑا لیکن کہا کہ ’میں آپ کو بتا دیتا ہوں آپ کے ساتھ اچھا نہیں ہونا‘۔
تو کیا اب حکومت چلی جائے گی؟ اس سوال کے جواب حامد میر نے کہا کہ ’حکومت نہیں چلی جائے گی، حکومت اگر چل گئی فیر تو تسی مظلوم ہوجانا اے نا، وہ آپ کو اسی طریقے سے باندھ کر رکھیں گے آپ کو گالیاں پڑوائیں گے، پالیسی کسی اور کی چلے گی، الزام آپ پر لگے گا، پارٹی کے اندر ٹوٹ پھوٹ بڑھے گی، اور اتنی زیادہ مارا ماری ہوگی کہ اگلا الیکشن شاید آپ نواز شریف کی قیادت میں لڑنے کے قابل نہ رہیں‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’میں آصف زرداری کا دوست نہیں آصف زرداری میرے دوست ہیں، میں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی انہیں ناراض کرنے کی‘۔
Comments are closed on this story.