جنوبی کوریا کے اداروں کو پاکستان میں کاروبار مخالف ماحول کا سامنا
جنوبی کوریا میں متعین پاکستانی سفیر نے وہاں کے کاروباری اداروں کے لیے غیر دوستانہ رویہ رکھنے پر پاکستانی وزارتوں کے حوالے سے شدید ناگواری کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ معاملات درست نہ کرنے کے نتیجے میں پاکستان کو اربوں روپے کے ہرجانے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
وزارتِ خارجہ نے حال ہی میں متعلقہ وزارتوں کو بتایا کہ جنوبی کوریا میں پاکستان کے سفیر نے دارالحکومت سیول میں کورین انرجی کمپنی کے واٹر کی انتظامیہ سے میٹنگ کی اور اُس کی ایک ذیلی کمپنی اسٹار ہائیڈرو پاور لمٹیڈ سے حکومتِ پاکستان کے تنازع پر بات چیت کی۔
وزارتِ خارجہ کے مطابق مظفر آباد میں 147 میگاواٹ کے ہائیدرو پاور پراجیکٹ میں کے واٹر اور ڈائیوو اینڈ سی انویسٹنگ بھی شراکت دار ہیں۔
تین معاملات میں اسٹار ہائیڈرو پاور لمٹیڈ نے ثالث عدالت جانے کو ترجیح دی ہے۔ پہلے کیس میں نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے خلاف دسمبر 2020 میں لندن کی کورٹ آف آربیٹریشن سے رجوع کیا گیا۔ کورین کمپنی کا موقف تھا کہ پراجیکٹ سے بجلی نہ لینے پر کوریا کے سرمایہ کاروں کو نقصان اٹھانا پڑا۔ عدالت نے این ٹی ڈی سی پر 7 ارب 40 کروڑ روپے کا ہرجانہ عائد کیا۔
دوسرا کیس حکومتِ پاکستان کے خلاف تھا۔ ملٹی لیٹرل انویسٹمنٹ گارنٹی ایجنسی نے پاکستان کے خلاف کارروائی کی کیونکہ اس نے ثالثی کے تحت ہرجانے کی رقم کے سلسلے میں گارنٹی کے لیے دی جانے والی کال نظر انداز کی۔
تیسرا کیس نیپرا کے خلاف تھا اور لندن کورٹ ہی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ معاملہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ کا تھا۔ اس کا فیصلہ جون 2024 میں ہوگا۔
بیشتر تنازعات پرائیویٹ پاور اینڈ انفرا اسٹرکچر بورڈ، سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی گارنٹیڈ اور این ٹی ڈی سی سے متعلق ہیں۔
وزارتِ خارجہ نے مزید بتایا ہے کہ سیول میں کے واٹر اور پاکستانی سفارتی مشن کی آخری میٹنگ میں کوریا کی کمپنی نے گفت و شنید پر رضامندی ظاہر کی تاہم دوسری ثالثی کا نتیجہ دیکھتے ہوئے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ ہرجانے کے حوالے سے پابند کردینے والا کوئی فیصلہ پاکستانی کے لیے بڑے مالی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق جنوبی کوریا میں پاکستانی سفیر کا کہنا ہے متعلقہ وزارتوں کو تمام معاملات کی درستی پر توجہ دینی چاہیے۔ پاکستان میں پن بجلی کے منصوبوں پر کام کرنے والے کورین ادارے بھی دن رات معاملات درست کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر انہیں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
Comments are closed on this story.