بھٹو کی حالت خراب تھی، ضیا حکومت پھانسی کی خبر چھپاتی رہی، 45 برس پہلے عالمی میڈیا کی خبر
4 اپریل 1979 کو سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر دیتے ہوئے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے جہاں سابق وزیراعظم کی شاندار شخصیت کا ذکر کیا وہیں یہ بھی لکھا کہ آخری دنوں میں وہ ایک ہارے ہوئے شخص کی طرح دکھائی دیتے تھے، وہ سوکھ چکے تھے۔ اخبار نے بھٹو پر تشدد کا خدشہ بھی ظاہر کیا اور یہ بھی بتایا کہ ضیا الحق حکومت بھٹو کی پھانسی کی خبر کیوں چھپاتی رہی۔
اخبار نے جیل کے محاصرے اور دو صحافیوں کی گرفتاری کا بھی ذکر کیا۔ 45 برس پہلے کے یہ واقعات امریکی اخبار میں کسی حد تک غیرجانبداری سے رپورٹ ہوئے۔
واشنگٹن پوسٹ کے نمائندے Peter Niesewand کی بھیجی ہوئی خبر کا مکمل متن درجِ ذیل ہے۔
“پاکستان کے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو آج صبح سے کچھ دیر قبل راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ اس پھانسی کے ساتھ ہی اُن کے مقدر سے متعلق طویل ڈراما ختم ہوا اور اب بہت بڑے پیمانے پر بدامنی اور عدم استحکام کا خطرہ ہے۔
سرکاری ریڈیو نے اعلان کیا کہ بھٹو کو پھانسی رات 2 بجے دی گئی اور ان کا جسدِ خاکی تدفین کے لیے رشتہ داروں کے حوالے کردیا گیا ہے۔ سینیر فوجی حکام نے بھٹو کے رشتہ داروں کو پھانسی کے بارے میں دن کے وقت آگاہ کردیا تھا۔
51 سالہ بھٹو کو ایک سیاسی حریف کے قتل کی سازش کے الزام میں چار دیگر ملزمان کے ساتھ سزائے موت سنائی گئی تھی تاہم یکے بغیر دیگرے کئی اپیلوں کے دائر کیے جانے اور عالمی رہنماؤں کی طرف سے پاکستان کے فوجی لیڈر اور صدر جنرل ضیا سے رحم کی اپیلوں کے باعث سزائے موت پر عملدرآمد میں اذیت ناک حد تک کئی ماہ کی تاخیر ہوئی۔
انتخابی دھاندلیوں کے الزام میں فوج کے ہاتھوں دو سال قبل برطرف کردیے جانے والے بھٹو کو ملک کے دیہی علاقوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہے جو 1971 سے 1979 تک اُن کے شاندار و طلسمانی اندازِ حکمرانی کا نتیجہ ہے۔ بھٹو کی پھانسی کے نتیجے میں ملک بھر میں پُرتشدد واقعات کے رونما ہونے کا خدشہ ہے۔
اگر پاکستان بدامنی کے ایک شدید دور میں دھکیل دیا گیا تو یہ جزیرہ نمائے عرب سے ایران و افغانستان تک کے خطے میں غیر معمولی شورش کا شکار ہونے والا ایک اور ملک ہوگا۔
سرکاری اور خاندانی ذرائع سے پھانسی کی خبر دیے جانے کے باوجود حکومتِ پاکستان نے تادیر بھٹو کی موت کا اعلان نہیں کیا۔ روزنامہ نوائے وقت نے جیل کے میڈیکل آفیسر کے حوالے سے بتایا ہے کہ بھٹو کو پھانسی دے دی گئی ہے۔
بھٹو کو پھانسی خفیہ فوجی کارروائی کے تحت دی گئی اور پھانسی دینے والوں کے علاوہ صرف بھٹو کی اہلیہ اور بیٹی کو مطلع کیا گیا۔ دونوں خواتین کئی ہفتوں سے گھروں میں نظربند ہیں۔
بھٹو کی اہلیہ نصرت بھٹو اور بیٹی بے نظیر بھٹو کو گزشتہ روز تین گھنٹے تک بھٹو سے ملاقات کی اجازت دی گئی اور سفارتی ذرائع کے مطابق انہیں بتادیا گیا تھا کہ پھانسی سے قبل بھٹو سے یہ ان کی آخری ملاقات ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق گزشتہ روز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اور ایئر پورٹس پر غیر معمولی حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔
پھانسی کے بعد بھٹو کے جسدِ خاکی کو تدفین کے لیے قریبی ایئر بیس سے جنوبی سندھ میں ان کے آبائی گاؤں بھجوایا گیا۔
3 اور 4 اپریل کی درمیانی شب راولپنڈی جیل کے گرد فوج تعینات کیے جانے سے اندازہ ہوچلا تھا کہ پھانسی اب زیادہ دیر کا معاملہ نہیں۔ رات کے ایک بج کر پندرہ منٹ پر دو صحافی جیل پر نظر رکھنے کی پاداش میں گرفتار کرلیے گئے اور انہیں قریبی پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ انہیں صبح کے وقت راولپنڈی جیل کے گرد تعینات فوجیوں کے ہٹائے جانے تک حراست میں رکھا گیا۔
جیل سپرنٹنڈنٹ یار محمد دریانہ نے، ان کے معاونین کے مطابق، رات جیل میں گزاری۔ یہ کسی بھی قیدی کی پھانسی کے حوالے سے رسمی نوعیت کا طریقِ عمل ہے۔
صبح چار بجے کے فوراً بعد راولپنڈی کی چکلالہ ایئر بیس سے، شیڈول سے ہٹ کر، ایک پرواز، بھٹو کا جسدِ خاکی لے کر، لاڑکانہ کے نزدیک گڑھی خدا بخش بھٹو روانہ ہوئی۔ لاڑکانہ اور گڑھی خدا بخش بھٹو میں فورسز کے اہلکار بڑی تعداد میں تعینات کیے گئے تھے اور رکاوٹیں کھڑی کرکے سڑکیں بند کردی گئی تھیں۔
لاہور ہائی کورٹ نے فردِ جرم عائد کی تھی کہ بھٹو نے 1974 میں اپنے سابق اتحادی احمد رضا قصوری کے قتل کی سازش کی۔ فردِ جرم کے مطابق احمد رضا خان قصوری تو بچ گئے تاہم اں کے والد، جو اُسی کار میں سوار تھے، قتل ہوئے۔
عدالتوں میں دائر کی جانے والی اپیلوں اور عالمی رہنماؤں کی طرف سے بھٹو کو معافی دینے کی اپیلوں کے باوجود جنرل ضیا متواتر کہتے رہے کہ وہ ہر حال میں عدالتی فیصلے کا احترام کریں گے اور اگر ججوں نے (سزائے موت کی شکل میں) فیصلہ سُنایا تو بھٹو کو پھانسی دی جائے گی۔ امریکی صدر جمی کارٹر، سعودی عرب کے فرماں روا خالد بن عبدالعزیز، برطانوی وزیر اعظم جیمز کیلیگن، چین کے وزیر اعطم ڈینگ ژیاؤ پنگ اور دیگر عالمی رہنماؤں کی طرف سے رحم کی اپیلوں کے باوجود جنرل ضیا کوئی اثر لیے بغیر اپنے موقف پر قائم رہے۔
چین کا ایک فوجی وفد آج پاکستان سے واپس جانے کو ہے اور حکومتِ پاکستان بھٹو کی پھانسی کے باضابطہ اعلان کے لیے وفد کی روانگی کی منتظر ہے تاکہ چینی وفد کو اس خبر پر تبصرے کی زحمت سے بچایا جاسکے۔
بھٹو کی پھانسی پر شدید، وسیع ردِعمل کا امکان ہے۔ ایسے میں جنرل ضیا نے ملک کو سویلین حکمرانی کی طرف واپس لانے کے لیے نومبر میں انتخابات کے انعقاد کا اعلان کیا ہے۔ یہ خبر ملک بھر میں پھیل چکی ہے۔ بڑے پیمانے کی سیاسی بدامنی نے جولائی 1977 میں بھٹو کو برطرف کرکے فوجی حکومت کی راہ ہموار کی تھی۔
انتخابات کی خبر سپریم کورٹ کی طرف سے اس اعلان کے ایک دن قبل آئی کہ اس نے بھٹو کے وکلا کی طرف سے سزا پر نظرِثانی کی آخری اپیلیں بھی مسترد کردی ہیں۔
بھٹو کے طویل مقدمے اور اپیلوں کی سماعت کے دوران پاکستان تناؤ اور افواہوں کے گھیرے میں رہا۔ تیز و طرار اور بھڑکیلے مزاج والے بھٹو کے معاملے میں کم ہی لوگ غیر جانب دار رہے ہیں۔ اُن کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان، سندھ اور دیگر صوبوں کے دیہی علاقوں میں ان کے حامی و طرف دار اُن کے ساتھ کھڑے رہے، گو کہ وہ جیل میں تھے۔ بتایا گیا ہے کہ بدامنی کے خدشے کے پیشِ نظر بھٹو کے سیکڑوں حامیوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا۔
آخری دنوں میں بھٹو مبینہ طور پر ایک ٹوٹے ہوئے انسان تھے، ان کی برکلے اور آکسفرڈ سے تعلیم یافتہ ہونے اور عوام یا عالمی رہنماؤں کے سامنے یکساں مہارت سے اپنی بات کہنے کی شہرت میں سے کچھ نہ بچا تھا۔
گزشتہ ہفتے جیل میں اُن کی کوٹھڑی تک جانے والے ایک شخص نے بتایا کہ وہ بیمار اور سوکھے ہوئے شخص تھے۔ کسی بیماری سے ان کے جبڑے کالے پڑگئے تھے اور سارا جوش و خروش جاچکا تھا۔“
Comments are closed on this story.