سائفر کیس کی سماعت پر دوسرے روز بھی خطوط کے سائے، پولیس افسران طلب
عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت پر منگل کو دوسرے روز بھی ججوں کو ملنے والے مشکوک خطوط کا ذکر چھایا رہا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے آئی جی اور ایس ایس پی آپریشنز کو ہائیکورٹ میں طلب کرلیا۔
عدالت کے استفسار پر ڈی آئی جی اور سی ٹی ڈی افسر نے بتایا کہ اسٹیمپ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطوط راوالپنڈی جی پی او سے بھیجے گئے، لیٹر باکس کے پاس سی سی ٹی وی کیمرے دیکھ رہے ہیں۔
منگل کو سماعت کا آغاز سائفر کیس پر عمران خان کے وکیل سلمان صفدر کے دلائل سے ہوا۔ تاہم ساتھ ہی عدالت نے ججوں کو مشکوک خطوط ملنے کے معاملے پر آئی جی اور ایس ایس پی آپریشنز فوری ہائیکورٹ طلب کرلیا۔ چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ آئی جی اور ایس ایس پی آپریشنز 15 منٹ تک آجائیں۔
سماعت کے دوران جسٹس میاں گل اورنگزیب نے کہاکہ ٹرائل کورٹ جج نےفائنڈنگ دی کہ پاکستان امریکہ تعلقات ختم ہوگئے، ٹرائل جج نےکس بنیادپریہ لکھا کہ تعلقات ختم ہوگئے؟
عمران خان کے وکیل سلمان صفدر نے کہاکہ اسد مجید نے ڈونلڈ لو کے ساتھ لنچ کیا اور اس لنچ پر گفتگو کی، ٹرائل جج نےامریکہ میں پاکستانی سفیراسدمجیدکےبیان کی بنیاد پرلکھا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ اسد مجید نے بھی یہ نہیں کہا۔
بیرسٹرسلمان صفدر نے شاہ محمودکی جلسے میں تقریردوبارہ پڑھ کر سنائی اور کہا کہ اس تقریر پر دس سال قید کی سزا سنا دی گئی۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق نے کہاکہ بانی پی ٹی آئی پرسیکرٹ ڈاکومنٹ ڈسکلوزاورغائب کرنےکےالزامات ہیں، آپ نےبتایاتھا کہ دو چارجز لگا دیے گئے، چارج تو ایک لگنا چاہئے تھا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ شاہ محمود قریشی پر ڈسکلوز کرنے کا نہیں، معاونت کا الزام ہے۔
اس کے بعد عدالت نے ڈی آئی جی آپریشنزکوعدالت نے روسٹرم پر بلا لیا، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کومعلوم ہوگاکہ کل ہائی کورٹ میں جوواقعہ ہوا،مقدمہ بھی درج ہوگیا۔
ڈی آئی جی نے کہاکہ ہم نے خطوط اور ان کے لفافے اینالیسز کے لیے لیب کو بھجوا دیے ہیں، پوسٹ ماسٹر جنرل کو لکھا ہے، ایک سٹیمپ صحیح نہیں پڑھی جا رہی، اسی طرح کے لیٹرز لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو بھی آج موصول ہوئے ہیں۔
سلمان صفدر نے کہاکہ یہ پولیس اور انوسٹی گیشن ایجنسیز کے لیے ٹیسٹ کیس ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کا سٹاف صرف ناکوں پرکھڑے ہونے اورلوگوں کوتنگ کرنا جانتا ہے، ہمیں روز شکایتیں آتی ہیں کہ وکلا کو پولیس ناکے پر روکا گیا ہے، آپ نے لیٹرز کے تجزیے کے علاوہ تفتیش میں کیا کیا؟ اب تو سی سی ٹی وی کیمرے ہر جگہ لگے ہوتے ہیں۔
پولیس افسرا نے کہاکہ سپریم کورٹ کے ججز کو بھی خطوط ملے ہیں۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ ابھی سٹیمپ ہی نہیں پڑھ پا رہے ہیں تو ہم کس کو کہیں، یہ کون سے ڈاکخانے سے پوسٹ کیے گئے ہیں؟
ڈی آئی جی نے کہاکہ جوتھوڑی بہت سٹیمپ پڑھی گئی ہے وہ راولپنڈی کے علاقہ کی ہے۔
سی ٹی ڈی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ابتدائی تفتیش کے مطابق یہ لیٹرز راولپنڈی جی پی او سے آئے، جی پی اومیں کسی لیٹرباکس کے ذریعے یہ لیٹرز پہنچے تھے، ہم لیٹر باکس کے پاس سی سی ٹی وی کیمرے دیکھ رہے ہیں ، کچھ لیٹرزپربھجوانے والے کا نام ریشم اور کچھ پرریشمہ لکھا ہے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ عیدقریب آرہی ہےمگرناکےپرکھڑےہونے والوں کو ہدایات کریں، جوناکےپرکچھ دےرہاہےاس کی بھی عیدہے،اس کا بھی خیال کریں۔
ڈی آئی جی آپریشنز نے کہاکہ میں نےاپنےموبائل نمبرزدیےہیں،کسی کوشکایت ہوتورابطہ کرسکتاہے۔
Comments are closed on this story.