Aaj News

جمعہ, نومبر 22, 2024  
19 Jumada Al-Awwal 1446  

ترکیہ کی ’تحریک لبیک‘ صدر اردگان کی الیکشن میں شکست کی بڑی ذمہ دار

صدر اردگان کے اتحادیوں نے الگ ہونے کا فیصلہ کیا، جو تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا
اپ ڈیٹ 01 اپريل 2024 06:15pm

حال ہی میں ترکیہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے جہاں دنیا بھر کو حیران کیا وہیں، اب ترکیہ کی سیاسی صورتحال بھی بدلنے کے دہانے پر دکھائی دے رہی ہے، جہاں صدر اردگان کے مقابلے میں نئی دائیں بازو والی سیاسی جماعت مقبول ہوتی جا رہی ہے۔

ترکیہ میں گذشتہ برسوں کے دوران 6 جماعتی اتحاد ’سی ایچ پی‘ صدر اردگان کو اقتدار سے ہٹانے میں ناکام رہا تھا۔

کردوں کی حامی سیاسی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی، نینشلسٹ IYI پارٹی نے اپنے امیدوار میدان میں اتارے تھے، جو اردگان کے مقابلے میں ہار گئے تھے۔ اس بار ان اپوزیشن جماعتوں نے اپنی غلطیوں سے سیکھا ہے اور حکمران جماعت کی سیاسی کمزوریوں کا بھی فائدہ اٹھایا ہے۔

تاہم اردگان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کو سب سے زیادہ نقصان سیاسی منظر نامے پر ابھرنے والی نئی سیاسی جماعت ’نیو ویلفئیر پارٹی‘ نے پہنچایا ہے۔

اس جماعت میں جو لوگ شامل تھے وہ ماضی میں اردگان کے اتحادی تھے لیکن ہم اب یہ اتحاد ختم ہو چکا ہے۔

اگرچہ اردگان کی پارٹی بھی ایک قدامت پسند اسلامی پارٹی ہے، تاہم نیو ویلفئیر پارٹی اس حوالے سے جارحانہ بیانیہ رکھتی ہے۔

اسے یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں جہاں مسلم لیگ ن دائیں بازو کی جماعت تھی لیکن لیکن تحریک لبیک پاکستان اس کے مقابلے میں زیادہ دائیں بازو کی جماعت ثابت ہوئی اور اس کا ووٹ بینک کھا گئی۔

نیو ویلفئیر پارٹی کے سربراہ محمد علی فاتح ایربکان سابق صدر نجم الدین اربکان کے صاحبزادے ہیں۔ وہی نجم الدین اربکان جو ترکی میں سیکولر قوتوں کے خلاف پیش پیش تھے اور جن کے پیروکار کے طور پر اردگان سیاسی افق پر ابھرے۔

اربکان ترکیہ کے اسلامی لیڈران میں شمار کیے جاتے ہیں۔ اردگان کی حکمران جماعت بھی انہیں کئی مواقع پر ترکیہ کا فخر قرار دے چکی ہے۔

لیکن اب نیو ویلفیئر پارٹی نے خود اربکان کی وارثت سنبھال لی ہے اور اردگان کم مستند اسلام پسند رہ گئے ہیں۔

تحریک لبیک سے نیو ویلفیئر پارٹی کا موازنہ اس لیے بھی بنتا ہے کہ چند ماہ قبل جب سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا واقعہ پیش آیا تو نیو ویلفیئر پارٹی نے استنبول میں سوئیڈش قونصل خانے کے سامنے مظاہرہ کیا۔

صدر اردگان کی ناکامی کی دوسری وجہ ترکی کا معاشی بحران بحران ہے۔

گزشتہ سال ترکیہ کے سینٹرل بینک نے ایک بار پھر سود کے ریٹ کو دُگنا بڑھا دیا تھا، یہ وہی وقت تھا جب ترکیہ کے کئی علاقے سیلابی صورتحال سے دوچار تھے، جو مالی اور جانی نقصان کا باعث بنی۔

جبکہ گزشتہ سال آنے والے آفت زدہ زلزلے نے بھی ترکیہ کی معیشت کی کمر توڑ دی تھی، جس میں 50 ہزار سے زائد اموات ہوئی تھیں، جس کے بعد ترکیہ میں دنیا بھر سے امداد کا سلسلہ شروع ہوا تھا، ماہرین کے مطابق سیلاب میں ہلاک ہونے والے 6 ہزار سے زائد شہریوں اور نقصان کے باعث حکمران جماعت کی مقبولیت میں کمی آئی۔

ایک تیسری وجہ یہ بھی ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے مضبوط امیدواروں کو میدان میں اتارا گیا تھا، اکرام اماموغولو کو استنبول سے لڑ رہے تھے، جوکہ استنبول کے مئیر بھی رہ چکے ہیں۔

اسی طرح انقرہ سے منصور یاواس، جو کہ وکیل بھی ہیں اور مئیر انقرہ کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر یہی دو مضبوط امیدوار گزشتہ انتخابات میں اردگان کی پارٹی کے مدمقابل لڑتے تو مقابلہ کانٹے دار ہونے کا امکان ہوتا۔

بڑھتی ہوئی مہنگائی، خوش فہمی، معمولی امیدروار، ناکام سیاسی مہم نے اردگان کی ہار میں اہم کرادار ادا کیا، اس سب میں سابق سیاسی اتحادی (نیو یلفئیر پارٹی) نے بھی راہیں جُدا کر لیں اور اتحاد ختم کر کے الیکشن لڑنے کے لیے اپنے امیدوار اتارے، جو کہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہو رہی ہے۔

جبکہ سیاسی ماہرین کا خیال ہے، کہ قدرتی اور معاشی چیلنجز کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل اب ایک نئے چہرے کو دیکھنا چاہتی ہے.

لیکن اس سب میں اردگان ایک اسلامی قانون لانے کے لیے پُر امید تھے جو کہ فیملی ویلیوز کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے، تاہم اب ان کے پاس اس نئے قانون کو لانے کے لیے اکثریت دکھائی نہیں دے رہیہے۔

اس کے لیے انہیں مذہبی اثر و رسوخ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی حمایت لازمی ہوگی۔

Recep Tayyip Erdogan

Istanbul

turkiye

local bodies elections

new welfare party