Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

قلت تواتر سے برقرار، ملک میں انسولین تیار کرنے کی ضرورت بڑھ گئی

صحتِ عامہ کے لیے ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا، ثنا اجمل اور ڈاکٹر ضیا نقی کی گفتگو
شائع 29 مارچ 2024 04:37pm

ماہرین نے کہا ہے کہ انسولین کی قلت دور کرنے کے لیے پاکستان میں پیداوار کی طرف جانا پڑے گا۔ اس حوالے سے طویل المیاد اور پائیدار بنیادوں پر پیداواری یونٹس کی تنصیب ہی اس مسئلے کا موثر حل ہے۔ ان خیالات کا اظہار ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ’میٹھی زندگی‘ کے نام سے غیر سرکاری تنظیم کی بانی اور ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ثنا اجمل نے روزنامہ بزنس ریکارڈر سے انٹرویو میں کہی۔

پاکستان میں پختہ عمر کے افراد میں سے 25 فیصد ذیابیطس میں مبتلا ہے۔ فارما اور ہیلتھ سیکٹر میں سرمایہ کاری کو بڑھاوا دینے والی پالیسیاں نہ اپنائے جانے سے ملک میں انسولین کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔

پاکستان بھر میں 20 سے 79 سال کی عمر کے افراد میں سے کم و بیش 26.7 کو ذیابیطس لاحق ہے۔ انٹرنیشنل ڈابابٹیز فیڈریشن کے مطابق عالمی سطح پر یہ تناسب 10 فیصد ہے۔ پاکستان ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے۔ بھارت اور چین اُس سے آگے ہیں تاہم اُن کی آبادی بھی بہت زیادہ ہے۔

ثنا اجمل نے بتایا کہ 2023 میں تین بار انسولین کی شدید قلت پیدا ہوئی اور ہر بار اس کا دورانیہ تین ماہ پر محیط رہا۔ انسولین کی قلت کا تیسرا دور دسمبر 2023 میں شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ پاکستان میں انسولین کی بعض اقسام کی قلت شدید تر ہے۔

ثنا اجمل کا کہنا ہے کہ انسولین کی کسی ایک قسم کی قلت کے باعث لوگوں کو دوسری اقسام سے کام چلانا پڑتا ہے۔ طلب و رسد کے درمیان فرق بڑھنے سے معاملات بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مطلوب قسم کی انسولین سے ہٹ کر کوئی انسولین استعمال کرنے سے ذہنی دباؤ بڑھتا ہے، نئے سرے سے تشخیص کرانا پڑتی ہے اور ہیلتھ کیئر کے حوالے سے الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انسولین کی قلت پر قابو پانے کا معقول ترین طریقہ یہ ہے کہ ملک میں انسولین تیار کرنے والے پلانٹ لگائے جائیں۔ بنگلہ دیش، بھارت، ملائیشیا اور افریقی ممالک نے انسولین مقامی سطح پر تیار کرکے قلت پر کامیابی سے قابو پایا ہے۔

ثنا اجمل کا کہنا تھا کہ پاکستان آبادی کے اعتبار سے پانچواں سب سے بڑا ملک ہے اور ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے اس لیے ہمیں صحتِ عامہ کے حوالے سے پوری توجہ سے ترجیحات کا تعین کرنا پڑے گا۔ بصورتِ دیگر مستقبل میں قومی معیشت پر صحتِ عامہ کے حوالے سے دباؤ بڑھتا چلا جائے گا۔

کراچی میں کلینک کے ذریعے پریکٹس کرنے والے ڈاکٹر ضیا نقی نے روزنامہ بزنس ریکارڈر سے گفتگو میں کہا کہ قومی معیشت کی خرابیوں کے باعث صحتِ عامہ کا شعبہ بھی مشکلات سے دوچار ہے۔ ایسے میں دواؤں کی قلت سے معاملات مزید بگڑ گئے ہیں۔ حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ لوگ ہاتھ میں پیسے لیے دوائیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔

ڈاکٹر خیا نقی کا مزید کہنا ہے ایسا کیوں ہے کہ کسی کو روز دوائیں خریدنا پڑیں؟ کیا ہفتے بھر کی دوائیں ساتھ نہیں خریدی جاسکتیں؟ لوگوں کو انسولین اور دیگر دواؤں کے لیے التجا کرتے دیکھ کر دل دُکھتا ہے۔

ملک میں 3 کروڑ 30 لاکھ ٹائپ ٹو ذیابیطس میں مبتلا ہیں جبکہ ٹائپ ون ذیابیطس کے مریض بھی ہزاروں ہیں۔ تحقیق کی کمی کے باعث ثنا اجمل اور دیگر پروفیشنلز علاقائی متعلقین سے ملنے والے آعداد و شمار کی بنیاد پر بات کر رہے ہیں۔ ثنا

اجمل کا کہنا ہے کہ پاکستان بھر میں ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد ایک لاکھ ہے۔ اگر انہیں مطلوب قسم کی انسولین میسر نہ ہو تو ان کامرض دو ہفتوں سے بھی کم وقت میں ہلاکت خیز ہو جاتا ہے۔

ٹائپ ون ڈایابٹیز انڈیکس کے مطابق مطلوب قسم کی انسولین بروقت نہ ملنے، موزوں تشخصیص نہ ہونے یا معقول نگہداشت نہ کیے جانے پر دو میں سے ایک مریض جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ عام طور پر اُن کی زندگی کے 46 سال بیماری سے لڑنے میں گزر جاتے ہیں۔

پاکستان میں انسولین کی قیمت دنیا میں سب سے کم ہے مگر پھر بھی آبادی کے بیشتر حصے کے لیے اس کا متحمل ہونا بھی ممکن نہیں۔ ٹائپ ون ذیابیطس میں مبتلا فرد کو انسولین، سُوئی یا سرنج، دن میں تین سے چار مرتبہ گلوکوز ٹیسٹنگ سپلائیز، لیب ٹیسٹ، اور ڈاکٹر سے مشورے پر ہر ماہ 10 ہزار روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ ذیابیطس کے باعث رونما ہونے والی کسی بھی طبی پیچیدگی پر خرچ ہونے والی رقم اِس کے علاوہ ہے۔

ثنا اجمل کہتی ہیں کہ ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے عام آدمی کے لیے معمولی تنخواہ کی حدود میں رہتے ہوئے ذیابیطس کا علاج کرا پانا تقریباً ناممکن ہے۔ ایک مسئلہ تو دواؤں کا دستیاب ہونا ہے اور پھر اُنہیں خریدنے کی سکت کا حامل ہونا بھی کم مشکل نہیں۔ اس حوالے سے لوگوں کی راہ نمائی کی ضرورت ہے تاکہ بیماری سے بچنے میں کامیابی حاصل ہو۔ ملک میں ایسے پروفیشنلز اور غذائی امور کے ماہرین بہت کم ہیں جو لوگوں کو ذیابیطس سمیت مہلک بیماریوں سے بچنے کے لیے ڈھنگ سے تیار کرسکیں۔ پاکستان کو صحتِ عامہ کے حوالے سے جو چیلنج درپیش ہیں اُن کا ڈھنگ سے سامنا کرنے کے لیے معاشرت اور پالیسی دونوں کے اعتبار سے معقول ماحول پیدا کرنا پڑے گا۔

ثنا اجمل نے بتایا کہ ’میٹھی زندگی‘ ملک بھر میں ٹائب ون ذیابیطس میں مبتلا نوجوانوں اور بچوں کو انسولین، ٹیسٹ کی پٹی، سُوئی یا سرنج اور لیب ٹیسٹ کی سہولت فراہم کرتی ہے۔ ٹائب ون ذیابیطس کے مریضوں میں شعور اجاگر کرنے کے لیے ’میٹھی زندگی‘ نے ایک ویب پلیٹ فارم بھی پروان چڑھایا ہے۔

Insulin

DIABETESE

ACUTE SHORTAGE

HIGH PRICES MEDICINES