Aaj News

ہفتہ, دسمبر 21, 2024  
18 Jumada Al-Akhirah 1446  

’جیت گیا تو دل کا دورہ پڑے گا‘، 238 بار ناکامی کا منہ دیکھنے والا ’الیکشن کنگ‘

پدما راجن نریندر مودی، اٹل بہاری واجپائی، منموہن سنگھ اور راہول گاندھی سے ہارچکے ہیں
شائع 29 مارچ 2024 09:21am

بھارتی عام انتخابات کے لیے ایک امیدوار ایسا بھی ہے جو 238 بار شکست کا سامنا کرنے کے باوجود ایک بار پھر کمر کس کے میدان میں اُتررہا ہے،’الیکشن کنگ‘ کے نام سے مشہور 65 سالہ پدماراجن کا کہنا ہے کہ اگر جیت گیا تو دل کا دورہ پڑ جائے گا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پدماراجن ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ الیکشن میں عام لوگ بھی حصہ لے سکتے ہیں۔ ٹائر مرمت کرنے کی دکان کے مالک پدماراجن نے 1988 سے جنوبی ریاست تمل ناڈو میں آبائی شہر میٹور سے انتخابات میں حصہ لینے کا آغاز کیا تھا۔

تامل ناڈو کے ضلع دھرما پوری کی پارلیمانی نشست پرالیکشن لڑ نے والے پدما اب ’الیکشن کنگ‘ کے نام سے مشہور ہیں جو اپنی ناکامیوں کی پرواہ نہیں کرتے۔

اُن کا کہنا ہے کہ، ’تمام امیدوارجیت کے خواہاں ہوتے ہیں لیکن میں نہیں ہوں۔‘ ان کی کامیابی حصہ لینے میں ہی ہے اور وہ ہار کو بخوشی گلے لگاتے ہیں۔ ۔ پدماراجن نے ملک بھر میں صدارتی سے لے کر مقامی الیکشن تک میں حصہ لیا ہے۔

وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی، سابق وزرائے اعظم اٹل بہاری واجپائی، منموہن سنگھ اور کانگریس رہنما راہول گاندھی سے ہارچکے ہیں-

انہوں نے ہرالیکشن کے کاغذات نامزدگی اور شناختی کارڈز کا تفصیلی ریکارڈ محفوظ رکھا ہے۔ اس بار انہیں ’ٹائر‘ کاانتخابی نشان الاٹ کیا گیا ہے۔

پدما راجن کے مطابق وہ 3 دہائیوں سے زیادہ عرصے کے دوران انتخابی نامزدگیوں کی فیس میں ہزاروں ڈالر خرچ کرچکے ہیں۔انہوں نے سیکیورٹی ڈپازٹ میں 25 ہزارروپے (300 ڈالر) جمع کروائے ہیں جو اس وقت تک واپس نہیں کیے جائیں گے جب تک کہ وہ 16 فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہیں کر پاتے۔

پدما راجن کی واحد کامیابی ’ لِمکا بک آف ریکارڈز’ میں بھارت کے سب سے ناکام انتخابی امیدوار کے طورپرجگہ حاصل کرنا ہے، اس بُک میں بھارتیوں کے بنائے گئے ریکارڈز شامل کیے جاتے ہیں۔

اُن کی اب تک کی بہترین کارکردگی 2011 میں میٹور کے اسمبلی انتخابات حصہ لینا رہی جہاں انہوں نے6 ہزار273 ووٹ حاصل کیے تھے، جبکہ مخالف امیدوار کو 75 ہزار سے زیادہ ووٹ ملے تھے۔

ٹائر مرمت کی دکان کے علاوہ پدماراجن ہومیو پیتھک معالج بھی ہیں اورمقامی میڈیا کے ایڈیٹر کے طور پربھی کام کرتے ہیں۔ وہ الیکشن لڑنے کو اپنی تمام ملازمتوں سے زیادہ اہم مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ، ’لوگ اپنی نامزدگیاں کروانے سے ہچکچاتے ہیں ، لیکن میں ایک رول ماڈل بننا چاہتا ہوں تاکہ اُن میں آگاہی پیدا ہو-‘

پدماراجن کے مطابق، ’ یہ اب پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے کہ ہرشہری اپنا حق رائے دہی استعمال کرے۔’

انہوں نے کہا کہ وہ اپنی آخری سانس تک الیکشن لڑتے رہیں گے لیکن اگر وہ کبھی جیت گئے تو حیران رہ جائیں گے۔ قہقہہ لگاتے ہوئے پدما راجن کا کہنا تھا کہ ، ’مجھے دل کا دورہ پڑے گا۔‘

india

indian elections

Election King

Padmarajan