پرانی گاڑیوں کی درآمدی ڈیوٹی ہٹانے پر ’پاما‘ کا شدید ردِعمل
ملک میں گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں نے گاڑیوں کی درآمد پر شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ پاکستان آٹوموٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) کا کہنا ہے کہ گاڑیوں کی درآمد سے مقامی آٹو موبال انڈسٹری شدید مشکلات میں گِھرگئی ہے۔
پاما کے ڈائریکٹر جنرل عبدالوحید خان نے کہا ہے کہ ملک میں گاڑیاں تیار کرنے والے اداروں کو پہلے ہی بحران کا سامنا ہے۔ ایسے میں ایس آر اوز 1571 اور 1572 کے ذریعے استعمال شدہ کاروں اور دیگر گاڑیوں کی درآمد پر ریگیولیٹری ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کا ختم کیا جانا بحرانی کیفیت میں اضافہ کرے گا۔
روزنامہ بزنس ریکارڈر کے مطابق عبدالوحید خان کا کہنا ہے کہ پرانی گاڑیوں کی درآمد آسان بنانے سے گاڑیاں تیار کرنے والے مقامی اداروں کے لیے مقابلہ مزید سخت ہوجائے گا۔ نظرِثانی شدہ بلند ٹیکس بھی بحال بھی نہیں کیا گیا ہے۔
عبدالوحید خان نے کہا کہ پرانی گاڑیوں پر ڈیوٹیز اور ٹیکسز میں آخری بار نظرِثانی 2014 اور 2015 میں کی گئی تھی۔ اس کے نتیجے میں پرانی گاڑیوں پر ڈیوٹی خاصی کم ہوگئی ہے اور ان پر 60 فیصد فرسودگی پہلے ہی دی جارہی ہے۔
حکومتی پالیسی کے باعث بہت سے تاجر سمندر پار پاکستانیوں کی آڑ میں بڑے پیمانے پر پرانی گاڑیاں منگواکر خوب منافع کمارہے ہیں اور اس کے نتیجے میں گاڑیاں بنانے والے مقامی اداروں کے لیے مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔
چند ماہ کے دوران 5139 پرانی گاڑیاں (ایس یو وی) درآمد کی گئی ہیں جبکہ گزشتہ برس اِسی مدت کے دوران صرف 669 پرانی گاڑیاں درآمد کی گئی تھیں۔
ایکو پیک اپ اور منی وین کیٹیگری میں بھی اضافہ دکھائی دیا ہے۔ گزشتہ برس کی اس مدت کے دوران 1025 گاڑیاں درآمد کی گئی تھیں جبکہ رواں سال 5099 گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں۔
یہ صورتِ حال انتہائی پریشان کن ہے کیونکہ رواں مالی سال کے دوران 25098 پرانی گاڑیاں درآمد کی گئی ہیں جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 641 فیصد زیادہ ہے جب 3386 پرانی گاڑیاں درآمد کی گئی تھیں۔
صرف فروری 2024 میں 3213 پرانی گاڑیاں درآمد کی گئیں۔ گزشتہ برس فروری میں صرف 396 گاڑیاں درآمد کی گئی تھیں۔
گاڑیاں تیار کرنے والے مقامی اداروں نے اپنی پیداواری صلاحیت بڑھانے پر بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور ملک میں وینڈر انڈسٹری کو پروان چڑھانے پر بھی اچھی خاصی فنڈنگ کی گئی ہے۔ پرانی گاڑیوں کی درآمد سے اُن کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔
پاما کے ڈائریکٹر جنرل کا یہ بھی کہنا ہے کہ گاڑیاں درآمد کرنے والے تاجر ٹیکس چوری بھی کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں قومی خزانے کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ گاڑیاں بنانے کی صنعت ملک میں بھاری سرمایہ کاری لاتی ہے، ٹیکنالوجی کی منتقلی بھی عمل میں آتی ہے، ملازمت کے نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں اور یوں ملک کی مجموعی ترقی میں اس شعبے کا کردار بہت اہم ہے۔
Comments are closed on this story.