پاکستان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی براہ راست یا تھرڈ پارٹی کے ذریعے مذاکرات نہیں ہو رہے، ممتاز زہرا بلوچ
دفتر خارجہ پاکستان کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ کا کہنا ہے کہ پاکستان چینی انجینئیرز کی گاڑی پر ہوئے حملے کی شدید مذمت کرتا ہے، ’یہ دہشتگردانہ حملے ان لوگوں کی طرف سے ہیں جو پاکستان کے دشمن ہیں ، پاکستان اور چین کی دوستی کے دشمن ہیں اور چین پاکستان دوستی کی وجہ سے سی پیک کے تحت ملک میں جو خوشحالی آئی اس کے دشمن ہیں‘۔
آج نیوز کے پروگرام ”اسپاٹ لائٹ“ میں خصوصٰ گفتگو کرتے ہوئے ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ پاکستان کا عزم ہے کہ ہم اس طرح کے دہشتگردو گروہوں کے خلاف ایکشن لیں گے، اور کسی کو بھی پاک چین دوستی میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ماضی میں بھی چین کے ساتھ مل کر ان دہشتگرد گروہوں کے خلاف ایکشن لیا ہے اور ہم آگے بھی مل کر اس طرح کے گروپس کے خلاف ایکشن لیتے رہیں گے۔
ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے کی پلاننگ کی ویڈیو کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ہم نے افغان حکومت کے ساتھ ان دہشتگردو گروہوں کے حوالے سے بہت سے شواہد شئیر کیے ہیں جو مختلف مواقع پر پاکستان میں دہشتگردی کرتے رہے ہیں، کچھ عرصہ پہلے حافظ گل بہادر گروپ نے پاکستان میں کارروائی کی اس کے شواہد بھی افغان حکومت کو دیے گئے۔
ممتاز زہرا بلوچ نے کہا ہماری افغان حکومت میں موجود ان افراد کے حوالے سے بھی افغان طالبان کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی ہے جو پاکستان کے خلاف ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ صرف پاکستان ہی نہیں کہہ رہا بلکہ انٹرنیشنل کمیونٹی بھی یہ کہہ رہی ہے کہ افغانستان کے اندر دہشتگرد گروہوں کی پناہ گاہیں ہیں، ٹی ٹی پی کی لیڈر شپ پے، اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے دہشتگرد گروہ ہیں جو وہاں موجود ہیں۔ اس حوالے سے ہماری باہمی گفتگو بھی ہوئی ہے اور پاکستان، چائنہ اور افغانستان کا ایک پلیٹ فارم ہے اس پر بھی بات چیت ہوئی ہے۔
ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ ’افغانستان نے ہمیں ہر موقع پر یہ یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان دہشتگرد گروہوں کے خلاف ایکشن لیں گے‘۔ ہم امید کرتے ہیں کہ جو یقین دہانیاں انہوں ہمیں اور انٹرنیشنل کمیونٹی کو کرائی ہیں وہ اس پر ایکشن لیں گے۔ یہ ضرور ہو گیا ہے کیونکہ ان دہشتگرد گروہوں کی وجہ سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ایک تشویشناک صورت حال پیدا ہو رہی ہے، جسے ہمیں مل کر حل کرنا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ تجارت کے حوالے سے پاکستانی وفد کا دورہ افغانستان پہلے سے طے تھا۔ تجارت کیلئے ماحول اسی وقت سازگار ہوسکتا ہے جب دہشتگردی کے واقعات قابو میں کیے جائیں۔ اس کیلئے افغانستان کو کچھ اقدامات لینے ہوں گے جس میان سب سے اہم اقدام یہ ہے کہ وہ ان ٹیرر گروپس کے خلاف ایکشن لیں، ٹی ٹی پی کی قیادت کے حوالے سے بھی ہمارے پطالبات ہیں کہ انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے، جو لوگ پاکستان میں دہشتگردی کرکے افغانستان چلے گئے انہیں بھی پاکستان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ’ہم دیکھیں گے کہ کتنے مؤثر طریقے سے یہ اقدامات لیے جارہے ہیں‘۔
ایک اور سوال کے جواب میں ممتاز زہرا بلوچ نے کہا کہ ’یہ واضح ہونا چاہئے کہ پاکستان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے، نہ ہی کوئی ڈائیلاگ (مذاکرات) پلانڈ ہے، افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو بات چیت ہوتی ہے اس ایجنڈے پر یہ شامل نہیں ہے، نہ ہی ہمارا ان ٹیرر گروپس کے ساتھ ڈائیلاگ کا ارادہ ہے اور نہ ہی ہم کسی تھرڈ پارٹی زریعے ان سے ڈائیلاگ کا ارادہ رکھتے ہیں‘۔
افغان مہاجرین کی بے دخلی کے حوالے سے کئے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے غیرقانونی طور پر یہاں مقیم افراد کو آفر کی کہ جو لوگ واپس جانا چاہتے ہیں وہ چلے جائیں، 90 فیصد افراد خود گئے انہیں کسی نے مجبور نہیں کیا گیا، جولوگ خود گئے انہیں فائدہ یہ ہے کہ انہیں دوبارہ پاکستان آنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ وزیرخارجہ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کچھ تاجروں نے بھارت سے تجارت کی خواہش کا اظہار کیا ہے اور حکومت پاکستان اس خواہش کا جائزہ لے گی، اس طرح کی چیزیں ہوتی رہتی ہیں، اس میں کوئی انوکھی بات نہیں، لیکن فی الحال اس طرح کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔
کیا پاکستان اور بھارت کے تعلقات نارمل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں ہے، نہ ہی عنقریب آپ ہماری طرف سے اس طرح کا کوئی اعلان سنیں گے‘۔
امریکی سفیر ڈونلڈ لو کے انتخابات میں بے ضابطگیوں اور اصلاحات کے بیان کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک سسٹم موجود ہے اور پاکستان اپنی ذمہ داریاں بکوبی نبھائے گا اور یہی ہمارا دنیا کو پیغام ہے۔
Comments are closed on this story.