امریکی میڈیا نے ایرانی فوج پر حملوں کیلئے دباؤ بڑھانا شروع کردیا
کیا وقت آگیا ہے کہ امریکی افواج معاملات کی درستی کے لیے ایرانی فوج (پاس دارانِ انقلاب) کو نشانے پر لیں؟ یہ سوال آج کل امریکی تجزیہ کار پوری شدت کے ساتھ اٹھارہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے بحیرہ احمر میں ایک مال بردار جہاز پر حملے میں تین سویلین امریکی میرینرز کی ہلاکت پر امریکی میڈیا نے طوفان کھڑا کردیا۔
معروف امریکی جریدے نیوز ویک نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ بحیرہ احمر کے معاملات درست ہونے کا نام نہیں لے رہے کیونکہ ایران کی حمایت یافتہ یمنی حوثی ملیشیا اس اہم سمندر میں حملے روکنے کو تیار نہیں۔
اسرائیل سے کسی نہ کسی طور وابستہ مال بردار اور دیگر جہازوں کو نشانہ بناکر حوثی ملیشیا دراصل غزہ میں حماس کی کارروائیاں رکوانے کی کوشش کر رہی ہے۔
حماس کے حملے روکنے کی امریکا، برطانیہ اور فرانس نے بھرپور کوشش کی ہے۔ امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ نے یمن میں حوثی ملیشیا کے ٹھکانوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ اب تک حوثی ملیشیا کے متعدد حملے ناکام بنائے جاچکے ہیں تاہم اس کے باوجود ملیشیا نئے حملوں کے ساتھ میدان میں آتی رہی ہے۔
بحیرہ احمر میں تجارتی جہاز رانی شدید متاثر ہوئی ہے۔ کنٹینر شپنگ کمپنی میئرسک (Maersk) نے اعلان کیا ہے کہ وہ فی الحال بحیرہ احمر میں اپنے جہاز بھیجنے کو تیار نہیں۔
اس اعلان سے یورپی یونین کو مایوسی ہوئی ہے کیونکہ اُس کے ارکان نے بحیرہ احمر میں جہاز رانی کے لیے سازگار حالات یقینی بنانے کی خاطر حوثی ملیشیا کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
بحیرہ احمر میں جہاز رانی رکنے سے یورپی یونین کو بڑے نقصان کا سامنا ہے۔ دنیا بھر کی سپلائی چینز بھی متاثر ہوئی ہیں۔ بعض چھوٹے ممالک میں ضروری سامان کی ترسیل بروقت نہ ہونے سے معیشت کے لیے پریشان کن صورتِ حال پیدا ہوئی ہے۔ دور افتادہ خطوں کے لیے زیادہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
Comments are closed on this story.