Aaj News

اتوار, نومبر 17, 2024  
14 Jumada Al-Awwal 1446  

بھارت نے پاکستان میں زیرکاشت باسمتی کی دو اقسام پر دعویٰ کردیا

متعلقہ اداروں کا قانونی کارروائیوں پر زور، پاکستان کو کرنسی کی قدر گھٹنے سے برآمد بڑھانے کا موقع ملا
شائع 22 مارچ 2024 12:49pm

بھارت نے پاکستان میں اگائی جانے والی باسمتی چاول کی دو اقسام پر دعویٰ کردیا ہے۔ بھارت کے متعلق اداروں کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر میں مقبول Pusa-1121 اور 1509 باسمتی بھارت میں اگائی جانے والی ورائٹیز ہیں اور یہ پاکستان میں 1121 کائنات اور کسان باسمتی کے نام سے اگائی جارہی ہیں۔

بھارت کے باسمتی چاول کی مختلف ورائٹیز کی بین الاقوامی منڈی میں مانگ بہت زیادہ ہے۔ انڈین ایگریکلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے باسمتی چاول کی مختلف اقسام کی پاکستان میں کاشت پر سوال اٹھایا ہے۔

اینڈین ایگریکلچرل ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اے کے سنگھ کہتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف قانونی کارروائی کی تیاری کی جانی چاہیے تاکہ ہم اپنے کسانوں اور برآمدی تاجروں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرسکیں۔

رواں وال بھارت کی چاول کی برآمدات ساڑھے پانچ ارب ڈالر تک متوقع ہیں۔ برآمد کیے جانے والے چاول کا 90 فیصد باسمتی کی اقسام سے تعلق رکھتا ہے۔ اے کے سنگھ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں باسمتی کی بھارتی ورائٹیز کے بیج غیر قانونی طور پر فروخت اور کاشت ہو رہے ہیں۔

پیوسا باسمتی پکنے کے بعد خاصا لمبا ہو جاتا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں اس ورائٹی کو پی کے 1121 ارومیٹک کے نام سے رجسٹر کرایا گیا ہے۔ چاول کی یہ قسم 1121 کائنات کے نام سے بیچی جارہی ہے۔

انڈین ایکسپریس نے بتایا ہے کہ سادہ گوگل سرچ نے 6 لاکھ 18 ہزار نتائج دیے۔ ان میں کراچی کی کمپنی لیلا فوڈز اور لاہور کی کمپنی لطیف رائس ملز کے ابلے ہوئے باسمتی کے بارے میں معلومات بھی شامل تھیں۔

پاکستان پر پیوسا باسمتی 6 اور پی بی 1509 بھی اگائی جارہی ہے۔ پی بی 1509 115 سے 120 دن میں تیار ہوتا ہے۔ باسمتی کی دیگر اقسام تیار ہونے میں 145 دن لیتی ہیں۔ ان ورائٹیز کو پاکستان میں کسان باسمتی کہا جاتا ہے۔

یو ٹویب سرچ سے پیوسا باسمتی 1847، پی بی 1885 اور پی بی 1886 کے اگائے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ یہ پی بی 1509، پی بی 1121 اور پی بی 6 کے بہتر بنائے ہونے ورژن ہیں۔

یہ ورائٹیز حافظ آباد، ملتان اور بہاول نگر کی رائس ملزم میں پیک کیے جاتے ہیں۔ بھارتی ادارے کا دعویٰ ہے کہ یہ تمام اقسام متعلقہ قانون کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔

انڈین ایکسپریس لکھتا ہے کہ یہ تمام ورائٹیز قانون کے تحت محفوظ ہیں۔ بھارتی کسان ان کے بیج کسی تھرڈ پارٹی کو بیچ نہیں سکتے۔

اے کے سنگھ نے کہا کہ پاکستان میں یہ تمام ورائٹیز اس لیے اگائی جارہی ہیں کہ ان کے اگانے کی صورت منافع بہت زیادہ ہے۔ صرف پانچ کلو بیج سے ایکڑ میں فصل اگائی جاسکتی ہے۔ اور اس کی پیداوار 2800 فی ایکڑ ہے اور اس میں صرف ماہ لگتے ہیں۔

فیکٹریوں میں پراسیسنگ کے دوران 300 کلو ضائع ہونے پر بھی ڈھائی ہزار کلو گرام پیداوار مل ہی جاتی ہے۔ باسمتی کی دیگر اقسام اگانے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی اور پیداوار اچھی حاصل ہوتی ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ اجرا کے صرف دو تین سال کے اندر یہ ورائٹیز سرحد پار چلی جاتی ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ کی منڈیوں میں باسمتی چاول کی اقسام کی بھرمار ہے۔

بھارت نے 2022-23 میں 45.61 لاکھ ٹن باسمتی چاول کی برآمد سے 4 ارب 79 کروڑ ڈالر کمائے۔ پاکستان کی باسمتی چاول کی برآمدات 2021-22 میں 7 لاکھ 58 ہزار ٹن رہیں جن سے 69 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کمائے گئے۔ 2022-23 میں یہ برآمدات 5 لاکھ 95 ہزار ٹن رہیں جن سے 65 کروڑ 4 لاکھ 20 ہزار ڈالر کمائے گئے۔

پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نے سپر کرنل باسمتی چاول کی برآمد میں اضافے کی گنجائش پیدا کی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کا پی بی ان براؤن رائس ایک ہزار سے ایک ہزار 75 ڈالر فی ہزار کلو گرام کے نرخ پر فروخت ہو رہا ہے۔

کرنسی کی قدر گرنے کی بدولت پاکستان نے امریکا اور یورپی یونین میں چاول کی مارکیٹ کا 85 فیصد شیئر حاصل کرلیا ہے۔ بھارت کو ایران، سعودی عرب اور مشرقِ وسطیٰ کے دیگر ممالک کی منڈیوں میں برتری حاصل ہے۔ پاکستان نے چاول کی پروسیسنگ کے شعبے میں زیادہ سرمایہ کاری نہیں کی ہے۔