یوکرین جنگ نے چینی معیشت کو نئی زندگی بخش دی
معاشی امور کے تجزیہ کاروں کو غلط ثابت کرتے ہوئے چین اور روس نے معاشی اور سفارتی امور میں اشتراکِ عمل بڑھادیا ہے۔ یوکرین جنگ نے بظاہر چینی معیشت کو نئی زندگی بخش دی ہے۔ دونوں ملک وسیع تر اقتصادی تعاون کے ساتھ ساتھ اب ایک نئی دنیا کی تشکیل کیلئے بھی ہاتھ ملاچکے ہیں۔
حال ہی میں چھٹی بار روسی صدر منتخب ہونے کے باعث ولادیمیر پوٹن نئے عہدِ صدارت میں پہلا ہائی پروفائل دورہ چین کا کرنے والے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر پوٹن مئی کے دورے ہفتے میں چین جائیں گے۔ چینی ہم منصب شی جن پنگ سے گفت و شنید میں اشتراکِ عمل کی نئی راہیں تلاش کرنے پر تبادلہ خیال بھی متوقع ہے۔
امریکی جریدے نیوز ویک نے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ جنوری اور فروری 2024 کے دوران روس اور چین کے درمیان مجموعوی طور پر 37 ارب ڈالر کی تجارت ہوئی۔
دونوں ممالک مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کی نئی راہیں تلاش کر رہے ہیں۔ یوکرین جنگ کے دوران چین میں مینوفیکچرنگ سیکٹر میں تیزی آئی ہے۔ اس جنگ سے متاثر ہونے والے ممالک چین کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔
مغرب کی نظر میں روس اور چین اُس کے سب سے بڑے تجارتی حریف اور دشمن ہیں۔ امریکا میں تین دن قبل گیلپ کے ایک سروے میں 41 فیصد رائے دہندگان نے ملک کے لیے چین کو سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ دوسرے نمبر پر روس اور تیسرے پر ایران رہا۔
روسی صدر پوٹن کے چھٹی بار منتخب ہونے پر امریکا اور یورپ نے شدید ردِعمل ظاہر کیا ہے ۔ دوسری طرف بھارت، چین، شمالی کوریا اور ایران نے روسی صدر کو چھٹی بار منتخب ہونے پر مبارک باد دی ہے۔ اس سے سفارتی سطح پر پائی جانے والی تقسیم کا اندازہ بھی لگایا جاسکتا ہے۔
بھارت بچ بچ کر کھیل رہا ہے تاکہ رند کا رند رہے اور جنت بھی ہاتھ سے نہ جائے۔
چین، روس اور ایران مل کر ایک نیا اتحاد تشکیل دینے کے مرحلے میں ہیں۔ بھارت اس معاملے میں تذبذب کا شکار ہے کیونکہ امریکا اور یورپ میں اس کے اچھے خاصے اسٹیکز ہیں۔
چین اور روس کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور کئی ممالک کی اِن دونوں کی پارٹنر شپ میں دلچسپی کے حوالے سے امریکا اور یورپ کے تجزیہ کار نمایاں تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ چین نے متعدد شعبوں میں یورپ کو پچھاڑ دیا ہے۔
امریکا میں بھی پروٹیکشن اِزم کی بات ہورہی ہے یعنی اپنی معیشت کو چین اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اثر و رسوخ سے بچانے کے لیے درآمدات پر غیر معمولی ٹیکس عائد کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔
چین اور روس کا مشترکہ وژن یہ ہے کہ مغرب اپنی مجموعی تاثیر تیزی سے کھو رہا ہے۔ یورپ بیشتر معاملات میں پیچھے ہٹ چکا ہے تاہم امریکا اب بھی، کینیڈا کے ساتھ مل کر، ایشیائی طاقتوں کو نیچا دکھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
امریکی پالیسی ساز چین اور روس کی مجموعی قوت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اس لیے مستقبلِ قریب میں کسی بڑی بحرانی کیفیت سے بچنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
Comments are closed on this story.