اب انکار کرنا بھی سیکھیے، ورنہ ۔۔۔۔۔
سب کو خوش کرنے کی کوشش انسان کو صرف پریشانی سے دوچار کرسکتی ہے اور کرتی ہی ہے۔ جب کسی کے لیے کچھ کرنے کی گنجائش ہو تو ایسا کرنے میں کچھ ہرج نہیں۔ لیکن اگر گنجائش نہ بنتی ہو تو انکار کرنے میں بھی کچھ ہرج نہیں۔ جو لوگ ایسا نہیں کر پاتے وہ الجھنوں سے دوچار رہتے ہیں۔
اگر کوئی آپ سے مدد مانگتا ہے اور آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ آپ سے انکار تو ہو ہی نہیں سکے گا، مدد کرنی ہی چاہیے تو اس میں آپ کا کوئی قصور نہیں۔ انسان فطرتاً ایسا ہی واقع ہوا ہے۔ ہاں، جب معاملہ حد سے بڑھتا ہے تب الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ دوسروں کی مدد کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہیں اور انکار کرنے کی ہمت ہی اپنے اندر پیدا نہ کر پائیں تو اس کا آپ کی ذہنی صحت پر شدید منفی اثر بھی مرتب ہوسکتا ہے۔
نفسی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ اپنے معاملات کو پہلے نمبر پر رکھنا کسی بھی درجے میں خود غرضی نہیں۔ یہ خود پسندی بھی نہیں بلکہ اِسے خود شناسی کہا جانا چاہیے۔ کسی بھی انسان کے لیے سب سے بڑھ کر کچھ ہے تو اُس کا اپنا وجود۔
ٹیلر سوئفٹ روئے ارض پر بڑے ستاروں میں سے ہے۔ وہ بھی اس خواہش کا شکار ہوئی کہ لوگ اُسے پسند کریں۔ اس کے لیے لازم تھا کہ وہ لوگوں کو خوش کرنے کی راہ پر گامزن ہو۔ اس نے اپنی دستاویزی فلم ”مس امریکانا“ میں تسلیم کیا کہ وہ لوگوں کو کسی نہ کسی طور خوش رکھنے کی عادت میں مبتلا ہے۔
دنیا بھر میں کروڑوں لوگوں کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش میں حد سے آگے بڑھ جاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ان کا اپنا چَین و آرام بھی داؤ پر لگ جاتا ہے۔
ذہنی صحت کے ایک بڑے بھارتی ماہر ڈاکٹر راہل چندھوک کہتے ہیں کہ دوسروں کی مدد کرنے کے عادی یا دوسروں کو خوش کرنے کے خبط میں مبتلا افراد کی اکثریت بالعموم آخر میں پریشانی ہی سے دوچار ہوتی ہے۔ جب وہ اپنے آپ کو بھول کر دوسروں کا خیال رکھتے ہیں تو زندگی خالی خالی سی لگنے لگتی ہے۔
انکار سے گریز کی بہت سی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ کبھی کبھی انکار کرنا کسی بھی حال میں ممکن ہی نہیں ہوتا۔ کھی کھی! اس کبھی کبھی کو لوگ جب کبھی میں تبدیل کرلیتے ہیں اور پریشان رہتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات کا مشورہ ہے کہ انسان کو اپنے معاملات و مسائل کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ اپنی ترجیحات کا تعین سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ دوسروں کی مدد کرنا اچھی بات ہے مگر اپنی ترجیحات کو داؤ پر لگانے کی قیمت پر نہیں۔
آپ کی زندگی پر بہت سوں کا حق ہوسکتا ہے مگر سب سے بڑھ کر تو آپ کا حق ہے۔ دوسروں کا خیال رکھنے کی دُھن میں اپنے وجود کو نظر انداز کرنا کسی بھی اعتبار سے معقول نہیں۔ سب کو خوش رکھنا ممکن ہے نہ ضروری۔ سب کو تو چھوڑیے، آپ کے لیے کسی ایک فرد کو بھی ہمیشہ خوش رکھنا ممکن نہیں۔ ایسے میں دانش مندی کا تقاضا ہے کہ سب سے پہلے اور سب سے زیادہ توجہ اپنے وجود پر دی جائے۔ آپ کا وجود مستحکم ہوگا تب ہی تو آپ کے لیے دوسروں کی مدد کرنا ممکن ہو پائے گا۔
Comments are closed on this story.