Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

بھارتی سپریم کورٹ متنازع قانون کیخلاف 200 سے زائد درخواستوں پر آج سماعت کرے گی

سیکولر آئین کے حامل بھارت میں مذہبی امتیاز کرنے والے اس قانون پر سخت تنقید کی جارہی ہے
شائع 19 مارچ 2024 10:36am
بھارتی سپریم کورٹ- فائل فوٹو
بھارتی سپریم کورٹ- فائل فوٹو

بھارتی سپریم کورٹ میں شہریت کے متنازع (ترمیمی) قانون 2019 (سی اے اے) کے حوالے سے دائر 200 سے زائد درخواستوں کی سماعت آج ہورہی ہے۔ دائر درخواستوں میں سی اے اے اور شہریت ترمیمی قواعد 2024 کے نفاذ کو روکنے کی استدعا کی گئی ہے۔

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل 3 رکنی بنچ ان درخواستوں کی سماعت کرے گا۔

گزشتہ ہفتہ سینئر وکیل کپل سبل نے کیرالہ کی انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائردرخواست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مرکز کی جانب سے متنازع قانون کو نافذ کرنے کا اقدام مشکوک ہے کیونکہ لوک سبھا انتخابات قریب آرہے ہیں۔

اس قانون کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں نے کہا ہے کہ سی اے اے مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ درخواستوں میں یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ اس طرح کی مذہبی تفریق بغیر کسی معقول وجہاور آرٹیکل 14 کے تحت معیار کے حق کی خلاف ورزی ہے۔

آئی یو ایم ایل کے علاوہ کچھ دیگر درخواست گزاروں میں ترنمول کانگریس کی رہنما مہوا موئترا ، کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر جے رام رمیش، اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسد الدین اویسی،آسام کانگریس کے رہنما دیببرت سیکی ، قانون کے کئی طالب علم اور دیگر شامل ہیں۔

آئی یو ایم ایل، دیب برت سیکیا، آسام جاتیات آبادی یوبا چتر پریشد (ایک علاقائی طلبہ تنظیم)، ڈیموکریٹک یوتھ فیڈریشن آف انڈیا (ڈی وائی ایف آئی) اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) نے بھی سی اے اے رولز 2024 کو چیلنج کیا ہے جس کے ذریعے سی اے اے نافذ کیا گیا تھا۔

کیرالہ پہلی ریاست تھی جس نے 2020 میں سی اے اے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بھارتی آئین کے ذریعہ دیے گئے مساوات کے حق کی دفعات کے خلاف ہے۔

کیرالہ کی جانب سے سی اے اے قوانین کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک اور مقدمہ بھی دائر کیا گیا ہے۔

بھارتی مسلم رہنما اسدالدین اویسی نے سپریم کورٹ میں دائر اپنی درخواست میں کہا ہے کہ، ’سی اے اے کی وجہ سے پیدا ہونے والی برائی صرف شہریت کو کم کرنے کی نہیں، بلکہ یہ ایک اقلیتی برادری کو الگ تھلگ کرنا ہے تاکہ شہریت سے انکار کے نتیجے میں ان کے خلاف کارروائی کی جا سکے۔‘

اے آئی ایم آئی ایم سربراہ نے کہا کہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے ذریعے مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔

اس پورے معاملے میں بھارتی حکومت نے اپنا موقف برقراررکھتے ہوئے عدالت سے ان درخواستوں کو خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا ہےکہ اس سے شہریوں کے قانونی، جمہوری یا سیکولر حقوق متاثر نہیں ہوں گے۔

واضح رہے کہ بھارتی حکومت نے دسمبر 2019 میں پارلیمنٹ سےمنظوری کے 5 سال بعد رواں سال 11 مارچ کو سی اے اے نافذ کیا جس کے بعد ملک بھر میں بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیا گیا۔

مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے ایکس پوسٹ پر شب 12 بجے شہریت کے اس ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کی اطلاع دی تھی جس کے مطابق اُن ہندوؤں ، پارسیوں، سکھوں، عیسائیوں، بودھ اور جین مت کے ماننے والوں اور دوسروں کو بھارتی شہریت دی جاسکتی ہے جو 31 دسمبر 2014 سے قبل مسلم اکثریتی ممالک جیسے کہ افغانستان،بنگلہ دیش اور پاکستان سے فرار ہو کر بھارت آئے ہوں۔

سیکولر آئین کے حامل بھارت میں مذہبی امتیاز کرنے والے اس قانون پر سخت تنقید بھی کی جارہی ہے تاہم بی جے پی کا موقف ہے کہ مسلم اکثریتی ملکوں میں ظلم و ستم کا سامنا کرنے والی اقلیتوں کی مدد کے لیے اس قانون کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا مقصد شہریت دینا ہے نہ کہ کسی سے چھیننا۔

جبکہ بھارتی مسلم گروپوں کا ماننا ہے کہ یہ قانون شہریوں کی ایک مجوزہ قومی رجسٹریشن کے ساتھ مل کربھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ سلوک کرسکتا ہے اور خدشہ ہے کہ حکومت کچھ سرحدی ریاستوں میں ان مسلمانوں کی شہریت ختم کر سکتی ہے جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔

india

CAA

indian supreme court

Citizenship Amendment Act