اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا، موجودہ شرح سود برقرار رکھنے کا فیصلہ
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی زری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) نے پالیسی ریٹ (شرح سود) کو مسلسل چھٹی بار 22 فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حالانکہ تجزیہ کاروں کو امید تھی کہ اس بار شرح سود میں بڑی کمی ہوسکتی ہے۔
بروکریج ہاؤس عارف حبیب لمیٹڈ نے گزشتہ ہفتے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ’اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسٹیٹ بینک آنے والی پالیسی میں 100 بیسس پوائنٹس کی کٹوتی کو لاگو کرکے شرح سود کی تبدیلی شروع کرنے پر غور کر سکتا ہے‘۔
اس حوالے سے عارف حبیب لمیٹڈ نے ایک سروے کیا تھا تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آئندہ مانیٹری پالیسی میں مارکیٹ کیا توقع کر رہی ہے۔
جواب دہندگان میں بینک، اثاثہ جات کی انتظامی کمپنیاں، انشورنس، اور ترقیاتی مالیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ غیر مالیاتی خدمات/ مینوفیکچرنگ سیکٹر کے نمائندے شامل تھے۔
سروے کے نتائج میں پایا گیا کہ کل جواب دہندگان میں سے 53 فیصد کا خیال ہے کہ اسٹیٹ بینک پالیسی کی شرح کو برقرار رکھے گا، جبکہ 47 فیصد شرح میں کمی کی توقع رکھتے ہیں۔
کٹوتی کی توقع کرنے والوں میں، 27 فیصد نے 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کی پیش گوئی کی، 17 فیصد کو 100 بیسس پوائٹس سے کم کٹوتی کی توقع تھی جبکہ 3 فیصد 200 بیسس پوائنٹس کی بڑی کمی کی توقع کر رہے تھے۔
اور سروے کے مطابق ہی نتیجہ آیا، یعنی 53 فیصد نے جو مانیٹری پالیسی برقرار رکھنے کی پیش گوئی کی تھی وہ درست ثابت ہوئی۔
اسٹیٹ بینک سے جاری بیان کے مطابق اپنے آج کے اجلاس میں اس فیصلے تک پہنچنے کے حوالے سے کمیٹی نے نوٹ کیا کہ گزشتہ توقعات کے مطابق مہنگائی مالی سال 2024 کی دوسری ششماہی میں واضح طور پر کم ہونا شروع ہوگئی ہے۔
تاہم کمیٹی نے نوٹ کیا کہ فروری میں تیزی سے کمی کے باوجود مہنگائی کی سطح بلند ہے اور اس کا منظرنامہ مہنگائی کی بلند توقعات کی بنا پر خطرات کی زد میں ہے۔ اس بنا پر محتاط طرز عمل درکار ہے اور ستمبر 2025 تک مہنگائی کو 5 سے7 فیصد کی حدود میں لانے کے لیے موجودہ زری پالیسی مؤقف قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔
کمیٹی نے اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ تجزیہ بھی بدستور ہدفی مالیاتی یکجائی (fiscal consolidation) اور منصوبے کے مطابق بیرونی رقوم کی بروقت آمد سے مشروط ہے۔
زری پالیسی کمیٹی نے یہ بات نوٹ کی کہ کمیٹی کے گزشتہ اجلاس کے بعد سے ہونے والی کچھ اہم پیش رفتوں کے میکرواکنامک منظرنامے کے لیے مضمرات ہیں۔
Comments are closed on this story.