Aaj News

اتوار, نومبر 17, 2024  
14 Jumada Al-Awwal 1446  

عین عروج کے لمحات میں زوال، ٹیک ٹائیکون مائیک لِنچ کی کہانی

'آٹونومی' کے مالک کو دھوکا دہی کے مقدمے میں 25 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے
شائع 18 مارچ 2024 12:18pm

برطانیہ کے ٹیک ٹائیکون مائیک لِنچ کی کہانی بھی عجیب ہے۔ وہ قابلِ رشک بلندیوں تک پہنچے اور پھر اچانک زمین پر آرہے۔ یہ سب کیسے ہوا، یہ کہانی دلچسپ بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔

مائیک لِنچ کو برطانیہ کا بل گیٹس کہا جاتا تھا۔ وہ اپنی کمپنی ’آٹونومی‘ کو امریکی ادارے ہیولیٹ پیکرڈ کے ہاتھ فروخت کرنے کے کیس میں الجھے ہوئے ہیں۔ اگر اس کیس میں وہ مجرم ثابت ہوگئے تو اُنہیں 25 سال جیل میں گزارنا پڑیں گے۔

ٹیک ٹائیکو ن نے 10 ماہ امریکی شہر سان فرانسسکو میں اس طور گزارے ہٰں کہ ان کے ہاتھ پر ایک بریسلیٹ بندھا ہے جس میں جی پی ایس ڈیوائس لگی ہے یعنی پورا ٹریک ریکارڈ رکھا جارہا ہے کہ وہ کب کہاں ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ دو مسلح محافظ بھی ہر وقت اُن کی نگرانی کرتے ہیں۔

اس ہفتے وہ عدالت میں پیش ہوکر اپنی آزادی کے لیے ایک طویل لڑائی کا آغاز کریں گے۔

13 سال قبل امریکا کی سلیکون ویلی کی بلند ترین عمارتوں والی کمپنیوں نے مائیک لِنچ کا شاندار کاروبار خریدا جس سے اُن کی امیج برطانیہ کے سب سے زیادہ باصلاحیت ٹیکنالوجسٹس کی حیثیت سے ابھری۔ یہ ڈیل اب اب مجرمانہ دھوکا دہی کے مقدمے میں تبدیل ہوچکی ہے۔

مائیک لِنچ آٹونومی کے شریک بانی ہیں۔ یہ سوفٹ ویئر فرم برطانیہ کلے ٹیک سین پر بہت نمایاں رہی ہے۔ کاروباری دنیا میں شاندار خدمات پر مائیکل لِنچ کو 2006 میں آرڈر آف برٹش ایمپائر دیا گیا اور 2011 میں انہیں اُس وقت کے برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کونسل میں تعینات کیا۔

مائیک لِنچ نے بی بی سی کے بورڈ پر بھی خدمات انجام دیں۔ انہوں نے ایک انویسٹمنٹ فرم بھی قائم کی جو سائبر سیکیورٹی فرم ڈارک ٹریس کو سہارا دینا تھا۔

کامیابی اور عروج کے اس شاندار سفر کے بعد اب مائیک لِنچ کو ایک جیوری کے سامنے پیش ہوکر یہ ثابت کرنا ہے کہ اُن کے کریئر کے شاندار ترین آئٹم آٹونومی کی ہیولیٹ پیکرڈ کو فروخت کا معاملہ جھوٹ کی بنیادوں پر کھڑا نہیں کیا گیا تھا۔

مائیک لِنچ کے لیے یہ سب کچھ ایسا آسان نہ ہوگا کیونکہ بہت کچھ اُن کے خلاف جارہا ہے۔ امریکا کے وفاقی وکلائے استغاثہ کے پاس خاصا خوفناک ریکارڈ اور بیشتر مدعا علیہان مقدمے کا سامنا کرنے کے بجائے اپنی غلطی ماننے کو ترجیح دیں گے۔

امریکا کے پیو ریسرچ سینٹر کے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ 2022 میں فیڈرل کرمنل کیسز میں 71954 مدعا علیہان میں سے صرف 2.3 فیصد نے مقدمے کی کارروائی کا سامنا کرنے کو ترجیح دی۔ اور صرف 0.4 فیصد بری ہوسکے۔

مائیکل لِنچ کے لیے اپنے آپ کو بے قصور ثابت کرنا بہت محنت و صبر طلب ہوگا۔ انہوں نے آٹونومی کو جس طور شروع کیا، کھڑا کیا اور دنیا کے سامنے پیش کیا اُس کی پشت پر اچھی خاصی گڑبڑ دکھائی دے رہی ہے۔ عدالت میں سب کی توجہ اگست 2011 کی ایک جمعرات کے واقعات کی طرف مُڑ جائے گی۔

امریکی اسٹاک مارکیٹ میں اُس دن کا کاروبار بند ہونے کے 10 منٹ بعد پرسنل کمپیوٹر بنانے والے دنیا کے سب سے بڑے ادارے ہیولیٹ پیکرڈ (ایچ پی) نے ایک ماسٹر پلان طشت از بام کیا۔ یہ ادارہ کمپیوٹر بناتے بناتے تھک چکا تھا اور اب ہارڈویئر کو چھوڑ کر سوفٹ ویئر کی دنیا میں قدم رکھنا چاہتا تھا۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ سوفٹ ویئرز سے اس کی آمدنی صرف 3 فیصد کی حد تک تھی۔

یہ مسئلہ تیزی سے ابھرتی ہوئی سوفٹ ویئر کمپنی آٹونومی کے ذریعے حل ہوسکتا تھا جس کے کلائنٹس میں کوکا کولا اور نیسلے جیسے بڑے ادارے بھی تھے۔

ایچ پی نے آٹونومی کے لیے 10 ارب ڈالر دینے پر رضامندی ظاہر کردی۔ ایچ پی کے سی ای او لیو ایپوتھیکر کا کہنا تھا کہ اُن کا ادارہ سوفٹ ویئر انڈسٹری پر راج کرنا چاہتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سودا قابلِ رشک حد تک منافع بخش ثابت ہوگا۔ مائیک لِنچ بھی اس سودے سے بہت خوش تھے۔

یہ خوشی زیادہ برقرار نہ رہ سکی۔ لیو ایپوتھیکر کو پانچ ہفتوں بعد فارغ کردیا گیا اور اس ٹیک اوور کے محض ایک سال سے بھی کم مدت میں مائیک لِنچ بھی آٹونومی کے سی ای او کا منصب چھوڑنے پر مجبور ہوگئے کیونکہ یہ سودا ایچ پی کی توقعات کے مطابق فائدے کا معاملہ ثابت نہیں ہوا تھا۔ معاملات کو انتہائی خرابی کی طرف جانے میں زیادہ وقت نہیں لگا۔

اس سودے کے سرف 15 ماہ بعد نومبر 2012 میں ایچ پی نے آٹونومی کی ویلیو 10 ارب 30 کروڑ ڈالر کے بجائے 8 ارب 80 کروڑ ڈالر بتائی۔ اس کا کہنا تھا کہ ادارے کی مجموعی مالیت کے حوالے سے غلط بیانی کی گئی تھی، بہت کچھ چھپایا گیا تھا، حساب کتاب میں گڑبڑ تھی۔

مائیک لِنچ نے برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں بتایا کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں اور ادارے کے نئے مالکان نے نظم و نسق کے معاملے میں غلطیاں کی ہوں گی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اُن کے رخصت ہونے سے قبل ہی ادارے کے آدھے عملے کو چلتا کردیا گیا تھا۔

ایچ پی نے کچھ اور کہانی سنائی۔ اِس کہانی کے مطابق گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھائی تھی۔ ایک سینیر ایگزیکٹیو چند ایسے پریشان کن معاملات کو منظرِعام پر لایا جو بعد میں تفتیش سے درست ثابت ہوئے۔ ایچ پی نے شواہد کی بنیاد پر طے کیا کہ غلط بیانی اور جھوٹ کو امریکا اور برطانیہ کے ریگیولیٹرز کے سامنے رکھا جائے گا۔

لیو ایپوتھیکر کے بعد ایچ پی کے چیف ایگزیکٹیو مقرر ہونے والے میگ وِٹمین کا کہنا تھا کہ آٹونومی کی انتظامیہ کے چند ارکان نے ادارے کے مالی معاملات کچھ زیادہ بڑھا چڑھاکر بیان کیے۔ اس کا مقصد بظاہر شیئر ہولڈرز اور ادارے کے متوقع خریداروں کو دھوکا دینا تھا۔

برطانوی حکام نے بھی تفتیش کی جو 2015 میں بند کردی گئی۔ دی سیریس فراڈ آفس کا کہنا تھا کہ وہ کافی شواہد حاصل نہیں کرسکا اس لیے یہ معاملہ اب امریکی ریگیلولیٹرز درست کریں گے۔

2016 مٰں امریکی حکومت نے آٹونومی کے چیف فائنانشل آفیسر شُشووان حسین پر دھوکا دہی کا الزام عائد کیا۔ اس نے صحتِ جرم سے انکار کیا۔ سُشووان حسین کو ادارے کی مالیاتی کارکردگی کے حوالے سے شیئر ہولڈرز کو گمراہ کرنے کا مرتکب قرار دیا گیا۔ اُسے اپریل 2018 میں 16 الزامات کے تحت وائر اینڈ سیکیورٹیز فراڈ کا مرتکب قرار دیا گیا اور 2019 مین 5 سال قید کی سزا سنادی گئی۔

اس کے بعد سب نے مائیک لِنچ پر توجہ دینا شروع کیا۔ نومبر 2018 میں ایک فیڈرل گرینڈ جیوری نے مائیک لِنچ اور آٹونومی کے سابق نائب صدر (فائنانس) اسٹیفن چیمبرلین پر فردِ جرم عائد کی۔ دونوں پر آٹونومی کے سرمایہ کاروں (شیئر ہولڈرز بشمول ایچ پی) کو حقیقی کارکردگی، مالی حالت اور امکاناتِ نمو کے حوالے سے دھوکے میں رکھنے کا الزام تھا۔

مائیک لِنچ کی حوالگی بھی مانگی گئی جس رکوانے کی انہوں نے بھرپور کوشش کی۔ گزشتہ اپریل میں لندن ہائی کورٹ نے ان کی اپیل مسترد کردی۔ اگلے ماہ مائیک لِنچ کو امریکا کے حوالے کردیا گیا۔ سان فرانسسکو کی ایک عدالت نے انہیں 10 کروڑ ڈالر کا ایک بونڈ جمع کرانے کا حکم دیا۔

مائیک لِنچ اور اسٹیفن چیمبرلین کا اصرار ہے کہ اُنہوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ امریکی حکومت ان کے خلاف 44 گواہوں کو طلب کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

گزشتہ مئی سے مائیک لِنچ سان فرانسسکو کے ایک شاندار مکان میں نظر بندی کاٹ رہے ہیں۔ نومبر میں انہیں روزانہ صبح 9 بجے سے رات کے 9 بجے تک گھر سے نکلنے کی مشروط اجازت دی گئی۔

MIKE LYNCH

AUTONOMY

HP

USA REGULATORS

FREUD

MISINFORMATION