150 سال کی عمر کے سنگِ میل تک پہنچنے کی تیاری
صحتِ عامہ سے متعلق جدید ترین ٹیکنالوجیز میں غیر معمولی پیش رفت نے طویل عمر ممکن بنادی ہے۔ انتہائی پس ماندہ معاشروں سے قطعِ نظر دنیا بھر میں اوسط عمر بڑھی ہے۔ دوسری طرف شرحِ پیدائش میں کمی آئی ہے۔ لوگ چونکہ زیادہ جی رہے ہیں اس لیے معمر افراد کی تعداد دنیا بھر میں بڑھ رہی ہے۔ شرحِ پیدائش گر جانے سے مستقبل میں معمر افراد کی دیکھ بھال کے حوالے سے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔
دنیا بھر میں طولِ عمر کے لیے بہت بڑے پیمانے پر خرچ کیا جارہا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے متمول ممالک بھی اس دوڑ میں شریک ہیں۔ خلیج کے مالدار ممالک اپنے ہاں اوسط عمر کو 90 سال کی منزل تک لے جانے کی تگ و دَو کر رہے ہیں۔ اگر سب کچھ یونہی چلتا رہا تو گلف کوآپریشن کاؤنسل کے رکن ممالک میں 50 سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد 2025 تک 18.5 فٰیصد ہوجائے گی۔ 2020 میں یہ تناسب 14.2 فیصد تھا۔
طبی ماہرین کی کمی، صحتِ عامہ کے مراکز کی قلت اور بیرونی افرادی قوت پر بہت زیادہ انحصار سے مشرقِ وسطیٰ کے ممالک میں صحتِ عامہ کے نظام پر دباؤ بڑھتا ہی جائے گا۔
عالمی ادارہ صحت کا تخمینہ ہے کہ 2050 تک 60 سال سے زائد عمر والوں کی تعداد دُگنی اور 2100 تک تِگنی ہوجائے گی۔
دبئی میں خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر زیمیر وینگ کہتے ہیں کہ طولِ عمر سے مراد عام پر زیادہ جینا لیا جاتا ہے۔ درحقیقت اس کا مطلب ہے اچھی صحت کے ساتھ زیادہ جینا۔ بہت سے لوگ 80 یا 90 سال سے بھی زیادہ جیتے ہیں مگر اُن کی صحت کا معیار بلند نہیں ہوتا۔
دنیا بھر میں زندگی کا دورانیہ بڑھانے کے لیے دوائیں اور ٹیکنالوجیز بروئے کار لائی جارہی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خلیوں کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے علاج کے کئی طریقے رائج ہیں۔ ایک طریقہ اوزون گیس کے استعمال پر بھی مبنی ہے۔
دبئی میں کارنر اسٹون کلینک کے ڈاکٹر ونسینزو ڈی ڈونا کہتے ہیں کہ ہمارے پاس بہت سے مریض کہنیوں اور گھٹنوں کے علاوہ کمر میں درد کی شکایت کے ساتھ آتے ہیں۔ اوزون تھیراپی اس معاملے میں غیر معمولی کردار ادا کرتی ہے۔
یو اے ای طولِ عمر اور اینٹی ایجنگ پریوینٹیو کیئر کی سہولتوں کے حوالے سے خود کو علاقائی لیڈر کی حیثیت سے منوانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ساتھ ہی ساتھ موٹاپے پر قابو پانے کی کوششیں بھی تیز کردی گئی ہیں۔ ایسے مراکز قائم کیے جارہے ہیں جن کی مدد سے بہتر صحت کے ساتھ طویل عمر ممکن بنائی جاسکے گی۔
شارجہ ریسرچ ٹیکنالوجی اینڈ انوویشن پارک اور ڈیپ نالج اینیلٹکس مل کر یو اے ای میں طولِ عمر کی صنعت کو پروان چڑھانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
2019 سے ابوظبی اسٹیم سیل سینٹر ٹشو ریجنریشن اور ریجووینیشن آف ایجنگ سیل پر تحقیق کر رہے ہیں۔ مصدر سٹی لیب میں ابوظبی کی محمد بن زاید یونیورسٹی آف آرٹیفیشل انٹیلی جنس اینڈ اے آئی ماڈلرز بایو میپ میں بڑھاپے سے متعلق بیماریوں پر کام ہو رہا ہے۔
برطانیہ کے آفس آف نیشنل اسٹیٹسٹکس کا کہنا ہےکہ 2013 میں پیدا ہونے والے بچوں میں ایک تہائی 100 سال تک جئیں گے۔ یو ایس سینسس بیورو کی پیش گوئی ہے کہ 2060 تک 85 سال سے زائد عمر والے افراد کی تعداد تِگنی ہوجائے گی۔
جمیرا کے ویلتھ کلینک کے ڈاکٹر فرینک لِپمین کہتے ہیں کہ اعلیٰ معیار کی زندگی کی بدولت اب 120 سال تک جینا تو ممکن ہو ہی چکا ہے۔ ایسے میں وہ وقت زیادہ دور نہیں لگتا جب زندگی کا دورانیہ 150 سال تک وسیع کیا جاسکے گا۔ سینسر والی چیزیں پہننے یا استعمال کرنے سے اور جسم میں کوئی گیجٹ یا چپ نصب کرنے سے متعلقہ افراد کی صحت کا ریئل ٹائم تجزیہ ممکن ہوسکے گا اور یوں ان کی بہترین ٹریٹمنٹ ممکن ہوسکے گی۔ بنیادی سوال محضِ طولِ عمر کا نہیں بلکہ طویل عمر میں صحت کا معیار بلند رکھنے کا ہے۔
Comments are closed on this story.