دوستوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے روزے رکھنا ہندو خاتون کیلئے اپنی دریافت کا راستہ بن گیا
ماریشس سے تعلق رکھنے والی ایک غیر سلم خاتون نیلم گوکلنگ نے ماہ صیام میں اپنے دوستوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر روزے رکھنے کا آغازکیا اور پھر یہ خود کو دریافت کرنے کا راستہ بن گیا۔
نیلم کا روزے رکھنے رکھنے کا سفر ملائیشیا میں اُن ایام سے شروع ہوتا ہے جب وہ وہاں ایک طالبہ کے طور پر رہتی تھیں اور ایک ورکنگ پروفیشنل کے طور پر واپس آئیں۔
نیلم نے خلیج ٹائمز کو بتایا کہ ملائشیا میں مسلمانوں کی بڑی آبادی ہے۔ میں نے 2021 میں وہاں رمضان کے دوران روزہ رکھنا شروع کیا تھا۔ ملائشیا میں میرے بہت سارے مسلمان دوست ہیں اور ہم ایک ساتھ سحری اور افطار کیا کرتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ، ’میرے لیے یہ سب یکجہتی اور ان کی ثقافت کے اس حصے کو سمجھنے سے متعلق تھا حالانکہ میں ایک ہندو ہوں۔‘
فن ٹیک کمپنی میں کام کرنے والی 26 سالہ نیلم 2 سال قبل دبئی پہنچی تھیں جہاں انہوں نے یہاں روزہ رکھنا جاری رکھا کیوں کہ آس پاس کے سبھی لوگ زیادہ تر اس ماہ مقدس میں روزہ رکھتے تھے۔
اداکارہ کے مطابق اس سے مجھے یہ سمجھنے میں بھی مدد ملی کہ جب آپ کو کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو کھانا اور پانی کے بغیر کام کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے۔
اب نیلم کے لیے روزہ ایک بالکل نیا معنی اختیار کر چکا ہے۔ ’، ’اس میں روزے کے روحانی پہلو کو سمجھنا شامل ہے ،جہاں افراد خود کو پاک صاف رکھتے ہوئے متعلقہ تصورات اپناتے ہیں۔ یہ ٹیم ورک کی طرح ہے جو آپ کو وہ تمام اقدار دکھاتا ہے جو آپ اپنے بارے میں ظاہر کرسکتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ، ’میں سحری کے لیے اٹھتی ہوں اور صبح سویرے فریج میں جو بھی دستیاب ہو، کچھ نہ کچھ کھاتی ہوں تاکہ دن بھر توانائی برقرار رکھ سکوں لیکن افطار بہت خاص ہے۔ میں دن کے اختتام پراپنے ساتھیوں کے ساتھ کھانے کا منتظر ہوتی ہوں، اس میں عام طور پر کھجور، جوس، پھل، سبزیاں اور گوشت شامل ہوتے ہیں جن کا آرڈر دیا جاتا ہے، یا ہم کہیں باہر جاتے ہیں۔‘
روز مرہ کے کاموں اور ذمہ داریوں کا انتظام کرتے ہوئے روزہ رکھنے کے لیے ضروری نظم و ضبط نے بھی نیلم کو خود سے متعلق قیمتی بصیرت فراہم کی ۔
انہوں نے بتایا کہ ، ’ کچھ کھانوں یا سرگرمیوں سے دور رہنے سے، مجھے اپنی عادات، خواہشات اور سوچ کے طریقوں کے بارے میں بڑھتی ہوئی آگہی کا تجربہ ہوتا ہے۔’
افطار کے وقت نیلم اپنے دوستوں کے ساتھ ”اتحاد“ کے احساس کا تجربہ کرتی ہیں، اُن کے مطابق، ’یہ ایک کمیونٹی کے احساس کو فروغ دیتا ہے. یہ صرف ’مزہ‘ یا ’اچھا وقت‘ نہیں ہے بلکہ دن کے اس وقت کا انتظار بھی ہے جب آپ نے بہت کام کیا اور آپ پہلے ہی تھک چکے ہیں لیکن دن کے آخر میں آپ جانتے ہیں کہ ’آپ نے یہ کیا‘۔
ایک غیر مسلم کے لیے 30 دن روزہ رکھنے کے لیے عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔
نیلم کے مطابق، ’پورے سال کے بعد روزہ رکھنا کسی کے لئے بھی کافی مشکل ہوسکتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں ہلکے چکر آنے کے لمحات ہوسکتے ہیں ، لیکن وقت کے ساتھ اس میں بہتری آتی ہے۔ یہ عادت اور عزم ہے جس پر عمل کرنا ہے، جس سے ایک اہم فرق پڑتا ہے۔‘
جذبہ رمضان اپنانے والی نیلم کا اگلا مقصد مقامی زبان سیکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ، ’ میں خود کو طویل عرصے سے متحدہ عرب امارات کا رہائشی سمجھتی ہوں، لہذا میں اب عربی سیکھنا چاہتا ہوں جو شاید میں اس سال کے آخر میں شروع کروں گی۔ اس سے نہ صرف سماجی طور پر دوسروں کے ساتھ گھل مل کر کام کرنے میں مدد ملے گی بلکہ یہ کام کے حوالے سے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا۔’
Comments are closed on this story.