آئی ایم ایف کے این ایف سی ایوارڈ پر نظر ثانی سمیت بڑے مطالبات
پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان قلیل مدتی قرض پروگرام کے جائزہ مذاکرات کا پہلا سیشن جمعرات کو مکمل ہوگیا۔ تین ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائے ارینجمنٹ (ایس بی اے) پر دوسری نظرِ ثانی کے لیے وزارت خزانہ میں ہونے والے اس سیشن میں آئی ایم ایف وفد کی قیادت نیتھن پورٹر نے کی۔ آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم میں جاری عدم توازن کو دور کرنے کے لیے قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ پر نظر ثانی کرے۔
وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کی قیادت میں پاکستانی ٹیم سے بات چیت، وزارت خزانہ کے کیو بلاک میں کی گئی۔ گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد اور چیئرمین ایف بی آرامجد زبیر ٹوانہ بھی پاکستانی ٹیم میں شامل تھے۔
یہ مذاکرات 14 سے 18 مارچ تک شیڈول ہیں تاہم اس میعاد میں 21 یا 22 مارچ تک توسیع بھی کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کی معاشی ٹیم کے تعارف کے بعد آئی ایم ایف کو قرض پروگرام پر عملدرآمد کے عزم اور معاشی بحالی کے لیے حکومتی ترجیحات سے آگاہ کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فریقین کےدرمیان مزید مذاکرات مقامی ہوٹل میں ہوں گے۔
پہلے دن کے مذاکرات میں وزارت خزانہ میں آئی ایم ایف وفد اور معاشی ٹیم کے درمیان تعارفی سیشن ہوا۔ آئی ایم ایف وفد کی قیادت نیتھن پورٹر جبکہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے معاشی ٹیم کی قیادت کی۔ تعارفی سیشن کے دوران وزیر خزانہ، گورنر سٹیٹ بینک، چیئرمین ایف بی آرنے وفد کو بریفنگ دی۔
ملاقات کے دوران چیئرمین ایف بی آر نے رواں مالی سال کا ٹیکس ہدف حاصل کرنے کا پلان دیا اور وفد کو یقین دہانی کرائی کہ نئے ٹیکس لگائے بغیر رواں مالی سال کا ہدف حاصل کر لیا جائے گا۔
آئی ایم ایف وفد نے معاشی استحکام کیلئے حکومتی اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو معاشی استحکام کیلئے سخت معاشی پالیسیاں اختیار کرنا ہوں گی۔
وفاقی وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مل کرمعاشی پالیسیوں پر عمل پیرا ہیں۔
تعارفی سیشن کے بعد آئی ایم ایف وفد وزارت خزانہ سے روانہ ہوا۔
آئی ایم ایف نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان وسائل کی تقسیم میں تفاوت کا حوالہ دیتے ہوئے این ایف سی ایوارڈ کا ازسرنو جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا۔
2010 میں قائم ہونے والے موجودہ فارمولے کے نتیجے میں صوبائی حصص بغیر کسی اضافی ذمہ داریوں کی منتقلی کے کل وفاقی ٹیکسوں کے 47.5 فیصد سے بڑھ کر 57.5 فیصد ہوگئے ہیں۔ اس سے مالیاتی عدم توازن اور عوامی قرضوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی حکام نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا کہ آئینی ترمیم لائے بغیر اور تمام صوبوں کو نئے فارمولے پر متفق کیے بغیر صوبائی حصص میں کمی نہیں کی جا سکتی۔
2010 کے این ایف سی ایوارڈ پر پانچ سال کی مدت کے لیے اتفاق کیا گیا تھا، لیکن اس کے بعد اس پر نظرثانی کے لیے کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔
نئی اصلاحات کے لیے صوبائی حمایت حاصل کرنے کے چیلنج سے نمٹنا، خاص طور پر سیاسی طور پر متنوع موجودہ منظر نامے کے اندر، مخلوط حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
آئینی ترامیم کے لیے ضروری دو تہائی اکثریت رکھنے کے باوجود، چاروں صوبائی حکومتوں سے معاہدے کا حصول غیر یقینی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی جیسی جماعتیں این ایف سی ایوارڈ کی بھرپور وکالت کر رہی ہیں جبکہ خیبرپختونخوا حکومت پاکستان تحریک انصاف کے زیر کنٹرول ہے۔
اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کچھ ذمہ داریاں صوبوں کو منتقل کرنے کی کوششیں کر رہی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ آئی ایم ایف کا وسائل کی دوبارہ تقسیم کا مطالبہ نئے پروگرام کے لیے ہے۔
آئی ایم ایف نے صوبائی حکومتوں کی جانب سے ضرورت سے زیادہ اخراجات کا معاملہ بھی اٹھایا، جو اس مالی سال کے 400 ارب روپے کے بنیادی سرپلس ہدف کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ آئی ایم ایف کو یقین دلایا گیا کہ چیف سیکرٹری پنجاب آئی ایم ایف کو مالیاتی پیشرفت اور ضرورت سے زیادہ اخراجات کو ٹھیک کرنے کے لیے کیے گئے اصلاحی اقدامات سے آگاہ کریں گے۔
بنیادی سرپلس ہدف کو حاصل کرنے میں وفاقی حکومت کی کامیابی کے باوجود اس کے اخراجات مسلسل کنٹرول سے باہر ہوتے جا رہے ہیں، جس کی بنیادی وجہ قرض کی ادائیگی ہے۔
نتیجتاً، صوبائی حکومتوں کی جانب سے 432 ارب روپے کیش سرپلس پیدا کرنے کے باوجود رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ (جولائی تا جنوری) کا مجموعی بجٹ خسارہ 2.7 ٹریلین روپے رہا۔
رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے دوران موجودہ صوبائی اخراجات میں 57 فیصد جبکہ ترقیاتی اخراجات میں 61 فیصد اضافہ ہوا۔
اس کے بعد، صوبائی حکومتوں نے وفاقی حکومت کے ساتھ دستخط کیے گئے اپنی مفاہمتی یادداشتوں (ایم او یوز) میں ترمیم کی جس میں متوقع وفاقی محصول، سالانہ صوبائی محصولات، اور کل اخراجات کے منصوبوں کو شامل کیا گیا، جو کہ منظور شدہ نقد اضافی رقم کے مطابق ہے۔
پنجاب کی صوبائی حکومت نے ایک ضمنی مفاہمت نامے کے ذریعے اس مالی سال کی بقیہ مدت میں اپنے اخراجات کو 115 ارب روپے تک محدود کرنے کا عہد کیا ہے تاکہ اس بجٹ سے منسلک ایم او یو میں کیے گئے 336 بلین روپے کا سرپلس حاصل کیا جا سکے۔
خیال رہے کہ آخری قسط کیلئے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کےتحت مذاکرات سے قبل پاکستان آئی ایم ایف کے تمام اہداف پورے کرچکا ہے۔ اسٹاف لیول سمجھوتہ ہونے کی صورت میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ کی منظوری سے ایک ارب 10 کروڑ ڈالر کی پہلی قسط جاری ہوگی۔
وزیرخزانہ نے دعویٰ کیا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہترہوگی۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کےساتھ 3 ارب ڈالرکا قرض پروگرام جولائی2023 میں طے پایا تھا، اس حوالے سے پاکستان کو 1.9 ارب ڈالر پہلے ہی جاری کیے جا چکے ہیں۔
وزارتِ خزانہ نےاس حوالے سے بتایا تھا کہ پاکستان نے تمام شرائط پوری کرنے کے علاوہ مذاکرات کامیاب بنانے کے لیے تمام بیان کردہ اہداف بھی حاصل کرلیے ہیں۔ یہ حتمی نظرِثانی ہے جس کے بعد اسٹاف لیول سمجھوتہ متوقع ہے۔
منگل کو وفاقی وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ حکومت کی اکنامک ٹیم ایک اور توسیعی امدادی پروگرام کے حوالے سے بات چیت کرے گی۔ حکومت کو مزید فنڈز کی ضرورت ہے۔ ایک اور بڑے پیکج کے حصول کے لیے مزید بات چیت آئندہ ماہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک سے ہونے والی میٹنگز میں کی جائے گی۔
برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف کی طرف سے ریویو کی کامیابی کے لیے پیش کی جانے والی تمام شرائط مکمل کرلی ہیں۔ اب اسٹاف لیول کے سمجھوتے کی توقع کی جاسکتی ہے۔
آئی ایم ایف کے ایک ترجمان کے مطابق پاکستان سے مذاکرات کے دوران زیادہ توجہ موجودہ ایس بی اے سپورٹیڈ پروگرام کی تکمیل پر ہوگی۔ اس کی میعاد اپریل 2024 میں ختم ہو رہی ہے۔
آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان کی طرف سے درخواست کی صورت میں درمیانی مدت کے قرضے کے پروگرام کو فائنلائز کیا جائے گا۔
سسٹینیبل ڈیویلپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ڈپٹی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ساجد امین جاوید نے کہا ہے کہ پاکستان کو بیرونی فنانسنگ اور معاشی بحالی کے لیے آئی ایم ایف سے نئے قرضے کی فوری ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بات خاصی حوصلہ افزا ہے کہ نئی حکومت بہت واضح طور پر جانتی ہے کہ اسے کیا چاہیے۔ ماضی کے دو تجربات میں آئی ایم ایف سے بات چیت اندرونی سیاسی اختلافات کی نذر ہوئی تھی۔
رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو ٹیکس سسٹم میں لانے کا مطالبہ
آئی ایم ایف نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر، مینوفیکچرر شعبے اور ریٹیلرز پر ٹیکس اقدامات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف وفد نے فرٹیلائزر پلانٹس کو سستی گیس فراہمی پر اظہار تشویش کیا اور ان پلانٹس کو سستی گیس کی فراہمی جلد ختم کرنے کے اقدامات کا مطالبہ کیا۔
وفد نے عالمی مارکیٹ میں کموڈیٹی پرائس مستحکم اورپاکستان میں نرخ بڑھنے پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف وفد نے وزیر توانائی، ایف بی آر اور بی آئی ایس پی حکام سے بھی ملاقاتیں کیں جس میں وزارت توانائی حکام نے گردشی قرضہ، ٹیرف آؤٹ لُک اور کاسٹ سائیڈ ریفامز پر بریفنگ دی۔
ایف بی آر حکام کی جانب سے ٹیکس ایڈمنسٹریشن اور ٹیکس پالیسی پر بریفنگ دی گئی۔
جبکہ بی آئی ایس پی میں رجسٹرڈ افراد، آؤٹ لُک اور ڈیولپمنٹ، رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں ٹیکسیشن اور ریٹیلرز کیلئے ٹیکس میکنزم پر بریفنگ دی۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف وفد نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر، مینوفیکچرر شعبے اور ریٹیلرز پر ٹیکس اقدامات اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو دستاویزی بناکر ٹیکس سسٹم میں لانے کا مطالبہ کیا۔
اس سلسلے میں آئی ایم ایف وفدکی اسٹیٹ بینک حکام سے بھی بات ہوئی ہے۔
Comments are closed on this story.