سابق نگراں وزیر صحت نے سندھ کے شعبہ صحت میں انتظامی اور مالی بے قاعدگیوں کا بھانڈا پھوڑ دیا
سابق نگراں وزیر صحت ڈاکٹر سعد خالد نیاز کا کہنا ہے کہ نگراں سیٹ اپ سے پہلے کی حکومت کی جانب سے مجھے کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا، مجھے کسی نے فون کیا نہ دباؤ ڈالا۔
آج نیوز کے پروگروم ”دس“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سعد نیاز نے نگراں سیٹ اپ میں شعبہ صحت کی مالی اور انتظامی بے قاعدگیوں کے حوالے سے کئی انکشافات کیے۔
ڈاکٹر سعد نیاز نے بتایا کہ سندھ میں کسی بھی نگراں وزیر کے سیکریٹریز اس سے مشاورت یا مرضی کے بغیر تعینات کیے گئے، میں نے کوشش کی کہ سیکریٹری ہیلتھ سے تعلقات اچھے بنا کر رکھیں اور کام کریں۔
روبوٹک سرجری کے حوالے سے تنازعے پر ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹرز کی اکثریت میری تائید کرے گی کہ بے شک روبوٹس اچھے ہوتے ہیں، لیکن جیسی ہماری صورتحال ہے ضروری ہے کہ 400 کروڑ روپے روبوٹ کے بجائے صحت کے دیگر شعبوں میں خرچ کریں۔ میں چاہتا تھا بنیادی صحت کے مراکز پر زیادہ توجہ دی جائے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ روبوٹس کی جو قیمتیں دی گئی تھیں وہ بہت زیادہ تھیں، انگلینڈ میں اس روبوٹ کی قیت 6 لاکھ پاؤنڈ ہے، جبکہ اسے ایک ارب روپے میں خرید گیا جس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 25 کروڑ روپے کی چیز ایک ارب روپے میں آئے تو اس میں چیک کرنے کی بڑی گنجائش ہے۔
سابق نگراں وزیر صحت نے کہا کہ ’ایک بڑا اسٹیپ (قدم) جو ہم نے لیا وہ یہ تھا کہ جس نے بھی حکومت سندھ سے پیسے لیے ہوئے ہیں، وہ ان پیسوں کی ڈیٹیلز (تفصیلات) فراہم کریں کہ وہ کیسے خرچ ہو رہے ہیں، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت کا حق ہے، اس میں ہم نے ان سے تین چیزیں مانگی تھیں کہ آپ ہمیں اپنے اسٹاف اور سیلریز کا بتائیں تاکہ ہم گورنمنٹ فیسیلیٹز کا موازنہ کرسکیں، فی دن کے اخراجات اور روٹین کے اخراجات دے دیں تاکہ ہم موازنہ کرسکیں حکومتی فیسیلیٹیز کے اخراجات کا اور خیراتی اداروں کا، خاص طور پر وہ ادارے جن کو حکومت سندھ بہت زیادہ پیسے دے رہی ہے‘۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم نے فنڈنگ کسی کی نہیں روکی۔
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سول اور جناح کا بجٹ ملا کر 15 ارب روپے ہے، اس سال انڈس کا بجٹ 8 بلین ہے، گمبٹ میں 7 بلین، ایس آئی یوٹی کا 15 بلین ہے، خیراتی ادروں کا بجٹ 90 ارب روپے ہے۔ اگر ان اداروں کی تفصیلات مل جائیں تو یہ جاننا آسان ہوجائے گا کہ ان کی کوسٹ (قیمت) سرکاری ادارے سے کم ہے یا نہیں، یہ خیراتی ادارے ہیں تو ان کی کوسٹ کم ہونی چاہیے۔
جے ڈی سی تنازعے پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرے پاس ایک سمری آئی کہ جے ڈی سی کی ایک لیب کو 2.2 ارب روپے اپروو کیے جائیں یا اس پر کمیٹی بنادی جائے، میرے پاس کیبنیٹ ایجنڈے کی لسٹ آئی تو میں نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ جس پر کہا گیا کہ آپ موجود نہیں تھے تو یہ سمری بنا لی گئی، میں نے اس دن کا ریکارڈ نکلوایا تو میں وہاں موجود تھا، اس طرح مجھے بائی پاس کرنے کی کوشش کی گئی جس پر میں نے اعتراض اٹھایا۔ سمری میں یہ بھی شامل تھا کہ اس ادارے کو دس سال تک 2 ارب روپے سالانہ فراہم کیے جائیں جو کہ مجھے لگا کہ نگراں حکومت کا یہ مینڈیٹ نہیں، میں نے یہ سمری منظور ہی نہیں ہونے دی۔ جے ڈی سی کے معاملے کا طریقہ کار ہی غلط تھا، منسٹر کو بائی پاس کرکے جو سمری گئی وہ طریقہ غلط تھا۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ بطور نگراں وزیر صحت میں ناکام رہا اور میری ناکامی کے ذمہ دار نگراں وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر تھے جو میرے کام میں روڑے اٹکاتے رہے۔
Comments are closed on this story.