بھارت نے آئی ایم ایف سے پاکستان کے قرض کی کڑی نگرانی کا مطالبہ کردیا
پاکستان کے لیے تین ارب ڈالر کا آئی ایم ایف پروگرام اپریل میں ختم ہوگا جس کے بعد قرضوں پر سود کی ادائیگی کیلئے پاکستان کو آئی ایم ایف کا ایک اور قرض پروگرام درکار ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان 6 سے 8 ارب ڈالر کے حصول کیلئے کوششیں کر رہا ہے اور اس سلسلے میں مذاکرات ایک دو ہفتے میں ہو سکتے ہیں۔ تاہم بھارت نے پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے قرض میں رکاوٹیں ڈالنا شروع کردی ہیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق آئی ایم ایف میں پاکستان کے جاری 3 ارب ڈالر کے پروگرام پر عمل درآمد کے لیے جائزہ اجلاس ہوا جس میں بھارت کے مندوب کرشنا مورتی سبرامنیم نے سخت موقف اپنایا۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کو ہنگامی طور پر دیئے جانے والے قرض کی سختی سے مانیٹرنگ کی جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئی ایم ایف کا قرض دفاعی اخراجات کے لیے استعمال نہ ہو پائے۔ بھارت نے یہ ہرزہ سرائی بھی کی کہ رقم دہشت گردی پر سرمایہ کاری یا دوسرے ممالک (چین، سعودی عرب) کو قرض کی ادائیگی میں بھی استعمال ہو سکتی ہے لہذا اسے روکا جائے۔
بھارت کی جانب سے پاکستان کے قرض کی سخت نگرانی کے مطالبے کا انکشاف معروف بھارتی اخبار دی ہندو نے کیا ہے۔
بھارتی اخبار کا کہنا ہے کہ بھارت حالیہ کچھ عرصے سے پاکستان کے لیے قرض کے پروگراموں پر ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز کیا ہے اور جولائی میں بھی اس نے ووٹ نہیں دیا تھا۔ جب پاکستان کے لیے تین ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی پروگرام منظور کیا گیا۔ اس کے بعد جنوری کے وسط میں جب 70 کروڑ ڈالر کی قسط جاری کی گئی تب بھی بھارت نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
تاہم اخبار کے مطابق اس مرتبہ نئی دہلی حکومت نے کرشنامورتی کو ہدایت کی ہے کہ آئی ایم ایف سے ’چیکس اینڈ بیلنس اور سخت نگرانی یقینی بنانے‘ کا مطالبہ کیا جائے۔
کیا بھارت پاکستان کا قرض رکوا سکتا ہے
پاکستان سمیت دنیا کے 190 ممالک آئی ایم ایف کے رکن ہیں۔ تاہم فیصلہ سازی میں ہر ایک کا وزن برابر نہیں۔
ہر رکن ملک کے پاس اس کی اہمیت کے اعتبار سے مخصوص تعداد میں ڈرائنگ رائٹس (drawing rights) ہیں اور اسی بنا پر اس ملک کے ووٹوں کا تعین ہونا ہے۔ مجموعی طور پر لاکھوں کی تعداد میں ووٹ ہیں۔ اس کی بنا پر
آئی ایم ایف کے رکن ممالک کو ان کے کوٹے کے حساب سے ووٹ دینے کا اختیار حاصل ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ جس کا کوٹا سب سے زیادہ ہے کے پاس 8 لاکھ 31 ہزار 401 ووٹ ہیں۔
پاکستان بھی آئی ایم ایف کا رکن ہے اور پاکستان کے پاس 21,769 ووٹ ہیں۔
رکن ممالک کے یہ ووٹ ان کی نمائندگی کرنے والے ڈائریکٹرز ڈالتے ہیں۔ پاکستان الجیریا، گھانا، ایران، لیبیا، مراکش اور تیونس کے ساتھ ایک گروپ میں شامل ہے۔ اس پورے گروپ کے ووٹ 123,301 ہیں جو مجموعی ووٹوں کا 2.45 فیصد بنتے ہیں۔
بھارت کے ووٹوں کی تعداد 132,603 ہے۔ بھارت جس گروپ میں شامل ہے اس میں بنگلہ دیش، بھوٹان اور سری لنکا بھی ہیں۔ اس گروپ کی نمائندگی بھارت سے تعلق رکھنے والے کرشنامورتھی سبرامنیم کرتے ہیں۔ اور اس گروپ کے ووٹوں کی تعداد 153,638 ہے جو کل ووٹوں کا 3.05 فیصد بنتی ہے۔
ایسے میں بھارت یکطرفہ طور پر پاکستان کا قرض رکوا نہیں سکتا۔ اس حوالے سے مزید تفصیل یہاں پڑھی جا سکتی ہے۔
آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ کے 24 ڈائریکٹرز لاکھوں ووٹ کیسے استعمال کرتے ہیں
پاکستان کو کتنی رقم درکار ہے اور کیوں
پاکستان کو جون میں رواں مالی سال ختم ہونے سے پہلے 6 ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ ان میں سے ایک بڑی ادائیگی اپریل میں متوقع ہے جب پاکستان کے ڈالر بانڈ میچور ہوں گے اور سرمایہ کاروں کو ایک بڑی رقم ادا کی جائے گی۔
اپریل میں ہی پاکستان کا موجودہ آئی ایم ایف پروگرام ختم ہو رہا ہے جو تین ارب ڈالر کا اسٹینڈ بائی اریجنجمنٹ ہے۔ اس کی آخری قسط میں پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔
موڈیز نے اپنے ایک حالیہ جائزے میں کہا ہے کہ جون 2024 تک اپنی بیرونی ادائیگیوں کے چیلنجز سے نمٹنے میں کامیاب رہے گا لیکن اس کے بعد بڑی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کوئی امید نہیں ہے۔
Comments are closed on this story.