ایران میں آج انتخابات، مہسا امینی واقعے کے بعد کوئی بڑی تبدیلی ممکن ہوگی؟
ایران میں آج پارلیمانی انتخابات آج ہو رہے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق 6 کروڑ 10 لاکھ افراد حق رائے دہی استعمال کریں گے۔ قانون سازاسمبلی کی 290 نشستوں کے لیے 14912 امیدوار میدان میں ہیں۔ علما یا مذہبی پیشواؤں پر مشتمل مجلس رہبری کی 88 نشستوں پر 144 امیدواروں میں مقابلہ ہے۔
دنیا بھر میں ان انتخابات کو غیر معمولی دلچسپی سے دیکھا جارہا ہے۔ مغربی میڈیا آؤٹ لیٹ ایرانی انتخابات کے حوالے سے تجزیوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اس بار انتخابات کو ایرانی نظامِ حکومت کے ایک بڑے امتحان کے روپ میں دیکھا جارہا ہے۔
الجزیرہ ڈاٹ کام نے ایک تجزیے میں لکھا ہے کہ 2020 کے انتخابات کے بعد سے ایران کو غیر معمولی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ سفارتی اور اسٹریٹجک سطح پر بھی الجھنیں رہی ہیں۔ ایسے میں نئی حکومت کے لیے کرنے کو بہت کچھ ہوگا۔ غیر معمولی دباؤ سے نپٹنا اُس کے لیے کسی بھی طور آسان نہ ہوگا۔
پاکستانی وقت کے مطابق پولنگ صبح ساڑھے نو بجے شروع ہوئی اور 10 گھنٹے جاری رہے گی۔ پولنگ کا وقت مخصوص صورتِ حال میں بڑھایا بھی جاسکتا ہے۔ ایران میں پولنگ کا وقت نصف شب تک بھی بڑھایا جاتا رہا ہے۔
ملک بھر میں 59 ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔ دارالحکومت تہران میں 5 ہزار سمیت صوبہ تہران میں (جس میں کئی دوسرے شہر بھی شامل ہیں) 6800 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے ہیں۔ 1700 پولنگ اسٹیشنز میں پولنگ مکمل طور پر الیکٹرانک ہوگی۔ ووٹنگ مشینیں نصب کردی گئی ہیں۔
ایرانی وزارتِ داخلہ نے پولنگ کے دوران امن برقرار رکھنے کے لیے ڈھائی لاکھ اہلکاروں کو تعینات کیا ہے۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کو ضرورت پڑنے پر پاس دارانِ انقلاب کی مدد بھی حاصل رہے گی۔
2020 میں ٹرن آؤٹ 42 فیصد رہا تھا جو 1979 میں آنے والے انقلاب کے بعد کم ترین تھا۔ 2020 میں انتخابات ایسے وقت ہوئے تھے جب ایران کے ایک ٹاپ کمانڈر قاسم سلیمان کی امریکی فوج کے ہاتھوں ہلاکت کو ایک ماہ گزرا تھا۔ ایک ایسے وقت کہ جب امریکا سے جنگ کا خطرہ سروں پر منڈلارہا تھا، ایران کے پاس دارانِ انقلاب نے یوکرین کے ایک مسافر بردار طیارے کو میزائل داغ کر مار گرایا تھا۔ اس واقعے میں 176 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ بعد میں ایران نے اِسے انسانی غلطی کا نتیجہ قرار دیا تھا۔
اس بار پولنگ ایسے وقت ہو رہی ہے جب ایران کی معاشی مشکلات بھی کم نہیں اور صحتِ عامہ کا معاملہ بہت حد تک پریشان کن ہے۔ دو دن قبل ہی کورونا وائرس نے دوبارہ سر اٹھایا ہے اور ایک ہلاکت بھی واقع ہوئی ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے نے ایک تجزیے میں کہا ہے کہ اس بار انتخابات ایرانی نظامِ حکومت کے لیے امتحان کی شکل اختیار کیے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بنیادی حقوق کی علم بردار مہسا امینی کی دردناک موت کے بعد ہونے والے انتخابات سے ایران میں کون سی بڑی تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہٰں۔
ایران میں انتخابات سے قبل، دوران اور بعد میں پُرتشدد واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ 2009 کے صدارتی انتخابات کے بعد ملک بھر میں شدید احتجاج ہوا تھا جسے حکومت نے طاقت سے کچلا تھا۔
آج کا ایران گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ ووٹرز کے لیے سب سے بڑا مسئلہ انفرادی سطح پر معاش کا ہے۔ کسی بڑی تبدیلی کی گنجائش البتہ کم ہی دکھائی دیتی ہے۔ بیشتر معاملات میں فیصلہ سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس نہیں بلکہ ملک کے سپریم کمانڈر (خامنہ ای) کے پاس ہوتا ہے۔
Comments are closed on this story.