لاہور میں عربی کیلی گرافی پر مبنی لباس پہنے خاتون کو ہجوم نے گھیر لیا
لاہور کے علاقے اچھرہ میں عربی کیلیگرافی پر مبنی لباس پہنے ایک خاتون کو ہجوم نے گھیر لیا۔
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں خاتون کو ایک ریسٹورانٹ نما دکان کے اندر کھڑے دیکھا جا سکتا ہے جبکہ اس کے سامنے کچھ لوگ جمع ہیں۔ ڈولفن پولیس کے اہلکار بھی موجود ہیں۔
ایک اور ویڈیو کچھ دیر بعد کی ہے جب لاہور پولیس کی اے ایس پی شاہ بانو موقع پر جمع لوگوں سے بات کر رہی ہیں اور پھر خاتون کو اپنے ساتھ لے کر وہاں سے روانہ ہو جاتی ہیں۔ اس وقت تک خاتون کو ایک سیاہ برقع پہنا دیا جاتا ہے۔
اس دوران ہجوم کی جانب سے نعرے بازی کی جاتی ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون دوپہر کو اچھرہ بازار خریداری کیلئے پہنچی تھی، اُس کے لباس پر عربی حروف تہجی میں کچھ لکھا تھا۔ جس پر لوگ نے سخت ناپاندیدگی کا اظہار کیا اور خاتون سے فوری طور پر لباس کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس دوران خاتون ایک ریسٹورنٹ میں پہنچی۔
پولیس نے واقعہ کی مزید تفصیل میں بتایا کہ ہوٹل کے مالک نے لوگوں کے ہجوم کو اکٹھا ہوتے دیکھتے ہوئے معاملے کی حساسیت کے باعث پولیس کو اطلاع دی، جس پر ایس ایچ او اچھرہ موقع پر پہنچ گئے اور خاتون کو فوری طور پر پولیس تھانے اچھرہ منتقل کر دیا۔
اے ایس پی گلبرگ کی جانب سے واقعہ سے متعلق ایک ویڈیو بیان میں کہا گیا کہ واقعہ اتوار کی دوپہر پیش آیا۔ جس کے بعد لوگوں کی تعداد اچھرہ تھانے کے باہر جمع ہونا شروع ہو گئی اور خاتون کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ جس پر معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے وہ خود موقع پر پہنچ گئی۔
ویڈیو بیان میں خاتون اور دو تین مرد تھانے میں موجود ہیں، مرد کہتے ہیں کہ خاتون کو معافی دے دی گئی ہے، لباس میں کوئی ایسی چیز نہیں تھی لیکن ایسا لباس نہیں پہننا چاہیے۔
خاتون بھی اس موقع پر معافی مانگتی ہے۔
پاکستان علما کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے لاہور میں خاتون کو لباس پر عربی الفاظ پرنٹ ہونے کی وجہ سے ہراساں کرنے کی شدید مذمت کی ہے۔
اپنے بیان میں طاہر اشرفی کا کہنا تھاکہ لاہور میں ایک خاتون کو لباس پر عربی الفاظ پرنٹ ہونے کی وجہ سے ہراساں کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان علما کونسل اس واقعے کی شدید مذمت کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھاکہ اس موقع پر اچھرہ پولیس کی کوششیں قابل تعریف ہیں تاہم خاتون سے معافی کا کہنا بلا جواز تھا، معافی ہراساں کرنے والوں کو مانگنی چاہیے۔
Comments are closed on this story.