قومی اسمبلی میں پارٹی پوزیشن: سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں آئینی ترمیم کیلئے ترپ کا پتہ
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں کا فیصلہ تقریباً کر دیا ہے۔ صرف سنی اتحاد کونسل کی خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا فیصلہ نہیں کیا گیا تاہم سنی اتحاد کونسل کے حصے میں آنے والی 23 نشستیں کسی دوسری جماعت کو الاٹ بھی نہیں کی گئیں۔
ان 23 نشستوں پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ ترپ کا پتہ ثابت ہونے والا ہے۔ موجودہ پارٹی پوزیشن کے لحاظ سے چھ جماعتی حکمران اتحاد کے پاس آئینی ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں لیکن اگر الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل کے حصے میں آنے والی نشستیں دیگر جماعتوں میں تقسیم کردیں تو حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت مل جائے گی۔
قومی اسمبلی میں اس وقت مسلم لیگ (ن) 84 جنرل نشستوں اور 24 مخصوص نشستوں کے ساتھ 108 کے عدد پر بیٹھی ہے اور سب سے بڑی جماعت ہے۔
پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد اراکین میں سے 81 سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوگئے تھے جب کہ بیرسٹر گوہر سمیت 8 پی ٹی آئی حمایت یافتہ اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ سنی اتحاد کونسل 81 جنرل نشستوں کے ساتھ دوسری بڑی جماعت ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تاحال سنی اتحاد کونسل کیلئے مخصوص نشستوں کا نوٹی فکیشن نہیں کیا تاہم یہ نشستیں دوسری جماعتوں کو الاٹ بھی نہیں کی گئیں اور الیکشن کمیشن اس معاملے پر سماعت کے بعد فیصلہ کرے گا۔
مخصوص نشستوں کی تقسیم کے دوران الیکشن کمیشن نے پنجاب سے خواتین کی 12 نشستیں اور خیبرپختونخواہ سے خواتین کی 8 نشستیں کسی کو الاٹ نہیں کیں۔ اسی طرح اقلیتوں کی نشستوں میں سے بھی تین کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔
نیچے دیئے گئے جدول میں ہم نے ان نشستوں کو سنی اتحاد کونسل کے سامنے خانوں میں ظاہر کیا ہے تاہم ان کا حتمی فیصلہ ابھی باقی ہے۔
سنی اتحاد کونسل کی جنرل نشستوں کی تعداد کے حساب سے یہ 23 نشستیں اس کے حصے میں آرہی ہیں۔ اگر یہ نشستیں اسے مل گئیں تو وہ 104 سیٹوں کے ساتھ ن لیگ کے قریب تر آجائے گی۔
قومی اسمبلی میں اس وقت 13 جماعتیں ہیں۔ جن میں سے چھ جماعتیں حکمران اتحاد میں شامل ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی 108، پیپلز پارٹی کی 68، ایم کیو ایم پاکستان 22، مسلم لیگ(ق) 5، استحکام پاکستان پارٹی 4 اور بی اے پی کی ایک نشست ملا کر ان کی مجموعی تعداد 208بنتی ہے جو دوتہائی اکثریت کے عدد 224سے کم ہے۔
یہ جماعتیں مل کر حکومت تو بآسانی بنا سکتی ہیں جس کے لیے سادہ اکثریت درکار ہے جو 169 ہے۔ لیکن آئینی ترمیم کے لیے انہیں دو تہائی ووٹ درکار ہوں گے جو حکمران اتحاد کے پاس نہیں۔
تاہم اگر الیکشن کمیشن اف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کے حصے میں آنے والی 23 نشستیں دوسری جماعتوں کو دینے کا فیصلہ کیا تو یہ صورت حال تبدیل ہو سکتی ہے۔ سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی کی خوش قسمتی کہ ایسا ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ الیکشن کمیشن نے سنی اتحاد کونسل میں آزاد امیدواروں کی شمولیت کو تسلیم کیا ہے۔ اب اگلہ مرحلہ صرف نشستوں کی تقسیم کا ہے۔
چونکہ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے پہلے سے مخصوص نشستوں کی فہرستیں جمع نہیں کرائی تھیں اور جنرل نشستیں جتنے والی تمام کے تمام امیدوار بشمول سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا کے الیکشن کے بعد پارٹی میں شامل ہوئے اس لیے یہ معاملہ زیر التوا ہے۔
الیکشن کمیشن کے نوٹی فکیشنز کے مطابق ن لیگ کے حصے میں سب سے زیادہ 24 مخصوص نشستیں آئی ہیں جن میں خواتین کی 20 اور اقلیتوں کی 4 نشستیں شامل ہیں۔
سنی اتحاد کونسل کو خواتین کی 20 اور اقلیتوں کی 3 نشستیں ملیں گی۔
پیپلزپارٹی کو خواتین کی 12 اور اقلیتوں کی 2 نشستیں ملی ہیں اور اس کی مجموعی تعداد 68 ہے۔
ایم کیو ایم کو خواتین کی چار اور اقلیتوں کی ایک نشست ملی ہے اور اس کی مجموعی تعداد 22 ہے۔
جے یو آئی کو اپنی 6 جنرل نشستوں پر خواتین کی دو نشستیں مل گئیں اور اس کی مجموعی تعداد 8 ہوگئی ہے۔
Comments are closed on this story.