Aaj News

اتوار, نومبر 03, 2024  
01 Jumada Al-Awwal 1446  

ایرانی سرحد سے گیس پائپ لائن کی تعمیر کیلئے رقم کہاں سے آئے گی، فیصلہ ہوگیا

پیداوار یکم جنوری 2015 کو شروع ہونی تھی، ایران پر بین الاقوامی پابندیوں سے رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔
شائع 23 فروری 2024 11:11am

حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر کے لیے گیس انفرا اسٹرکچر ڈیویلپمنٹ سیس (جی آئی ڈی سی) کی مد میں جمع کیے گئے 45 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔

باخبر ذرائع نے روزنامہ بزنس ریکارڈ کو بتایا کہ ایرانی سرحد سے گوادر تک 80 کلومیٹر کی پائپ لائن بچھائی جانے والی ہے۔

نگراں وفاقی کابینہ کی توانائی سے متعلق کمیٹی کا اجلاس آج (جمعہ کو) کسی وقت متوقع ہے۔ اس اجلاس میں پٹرولیم ڈویژن کی اس تجویز کی منظوری دی جانی ہے۔ اگر پاکستان نے اس معاملے میں تاخیر کی تو اسے معاہدے کے مطابق جرمانے کی مد میں 18 ارب ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔

رواں مالی سال کے لیے دوران ڈھائی ارب ڈالر دستیاب ہوں گے۔ باقی 42 ارب 50 کروڑ روپے جی آئی ڈی سی بورڈ کی منظوری سے اگلے مالی سال میں فراہم کے جاسکیں گے۔

حکومت کو جرمانے سے بچانے کے لیے فائنانس ڈویژن نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر کام شروع کرنے کی منظوری دے دی ہے۔

جی آئی ڈی سی کے فنڈز استعمال کرنے کا حتمی فیصلہ ہائی پاورڈ پراجیکٹ بورڈ کا کرنا ہے۔ پٹرولیم ڈویژین اس سلسلے میں جی آئی ڈی سی بورڈ کے سامنے تجویز رکھ سکتا ہے۔

ایران پاکستان گیس پائپ لائن سے متعلق ڈیکلیریشن پر 24 مئی 2009 کو ایران اور پاکستان کے صدور نے دستخظ کیے تھے۔ جنوبی ایران کی پارس گیس فیلڈ سے 25 سال تک گیس حاصل کی جائے گی۔

اس گیس پائپ لائن کا 1150 کلومیٹر کا حصہ ایران میں 781 کلومیٹر کا حصہ پاکستان میں ہے۔ گیس کی ترسیل یکم جنوری 2015 سے شروع ہونی تھی۔ ایران نے 900 کلو میٹر تک کا کام مکمل کرلیا ہے۔

گیس کی خریداری سے متعلق سمجھوتے کی منظوری وفاقی کابینہ نے 3 جون 2009 کو دی تھی۔ اس پر دستخط 5 جون 2009 کو کیے گئے تھے۔

28 مئی 2010 کو حکومت نے انٹر اسٹیٹ گیس سسٹمز لمٹیڈ کے لیے ساورن گارنٹی دی تھی۔ ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کے باعث اس منصوبے پر پوری طرح عملدرآمد ممکن نہیں ہوسکا ہے۔

پاکستان کو درپیش مشکلات کے پیش نظر ایرانی حکومت نے یکم دسمبر 2012 کو بین الحکومتی تعاون کے سمجھوتے کے تحت مالیاتی وسائل فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ وفاقی کابینہ نے اس کی منظوری 30 جنوری 2013 کو دی۔

ایرانی حکومت 17 مارچ 2014 کو اس سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر الگ ہوگئی۔ تب سے اب تک اس منصوبے پر سرگرمیاں رکی پڑی ہیں۔

متبادل حکمتِ عملی کے طور پر چین سے مل کر گوادر سے نوابشاہ تک ایل این جی ٹرمنل اور پائپ لائن پراجیکٹ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ اپریل 2016 میں چائنا پٹرولیم پائپ لائن بیورو کو چینی حکومت نے اس منصوبے کے لیے نامزد کیا۔

اپنے حصے کا کام نہ کر پانے پر پاکستان کو ممکنہ جرمانے کا سامنا تھا۔ ایران سے گفت و شنید کے بعد فرینچ سول کوڈ کے تحت معاہدے میں پانچ سال کی توسیع کردی گئی۔ یہ توسیع 27 فروری 2019 کو کی گئی۔

ترمیمی سمجھوتے پر، وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد، 5 ستمبر 2019 کو دستخط کیے گئے۔ تب سے اب تک حکومتِ پاکستان نے ایران سے مختلف سطحوں پر رابطہ رکھا ہے تاکہ اس منصوبے پر کام تیزی سے مکمل کیا جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں :

ایران: گیس پائپ لائن دھماکے سے 5افراد جاں بحق

گیس پائپ لائن میں دھماکے، ایران کا کسی ملک یا گروپ پر الزام لگانے سے گریز

ایران کو پاکستانی اقدامات سے باضابطہ طور پر مطلع کیا جاتا رہا ہے۔ معاملے کو جرمانے کی سطح تک پہنچنے سے روکنے کے لیے دونوں حکومتیں ایک دوسرے سے تعاون کرتی رہی ہیں۔

ایران پر بین الاقوامی پابندیوں کے باعث پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کے باعث منصوبے کی بروقت تکمیل میں دشواریوں کا سامنا رہا ہے۔ اب معاملات بہت حد سلجھ چکے ہیں۔

پاکستان نے اس منصوبے کے حوالے سے روس، چین، ترکمانستان اور آذر بائیجان سے بھی رابطہ رکھا ہے۔

sanctions

penalty

IRAN PAK GAS PIPELINE

CABINET APPROVAL