کسانوں کے احتجاج سے دہلی میں خوف و ہراس، مودی سرکار بات چیت پر رضامند
بھارت کی ریاست ہریانہ اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے کسانوں کے قائدین سے مرکزی حکومت نے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کردی ہے تاہم ابھی یہ واضح نہیں کہ مذاکرات کن بنیادی نکات پر ہوں گے۔
کسانوں کے احتجاج اور دھماکوں کی دھمکیوں نے دہلی میں شدید خوف کا ماحول پیدا کردیا ہے۔
کسانوں کا مطالبہ ہے کہ ان کی فصلوں کو انشورنس کے ذریعے تحفظ فراہم کیا جائے اور موسمی تبدیلی سے والے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔ ساتھ ہی کسانوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ بیج اور کھاد کم قیمت پر خریدنے کی گنجائش پیدا کی جائے۔
مرکزی حکومت سے کسان ایک زمانے سے یہ مطالبہ بھی کر رہے ہیں کہ انہیں فصلوں کی اچھی قیمت ادا کیے جانے کی بھی گنجائش پیدا کی جائے۔
کسانوں کے احتجاج اور ’دہلی چلو‘ مارچ کے باعث دہلی میں صورتِ حال انتہائی پیچیدہ ہے۔ سیکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات کیے گئے ہیں۔ دہلی کی سرحدیں بند کی جارہی ہیں۔ پولیس اور پیرا ملٹری فورس کی غیر معمولی نفری چار سے زائد مقامات پر دہلی کو سیل کر رہی ہیں۔
کسانوں نے دہلی کی طرف مارچ کرتے ہوئے متعدد مقامات پر دھرنا دیا ہے۔ بہت سے کسانوں نے ٹریک پر دھرنے دیا ہے جس کے نتیجے میں ٹرینوں کا شیڈول بگڑ گیا ہے۔ سیکڑوں کسان دہلی میں داخل ہوچکے ہیں تاہم فی الحال وہ کہیں جمع ہونے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ ایسی صورت میں پولیس اور پیرا ملتی دستوں کی طرف سے کارروائی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
صوبائی اور مرکزی حکومت کے لیے یہ صورتِ حال دردِ سر سے کم نہیں۔ مرکزی حکومت زیادہ پریشانی سے دوچار ہے کیونکہ بم دھماکوں کی دھمکیاں بھی تواتر سے مل رہی ہیں۔
مرکزی حکومت خوفزدہ ہے کہ اگر دہلی میں ہزاروں کسانوں کے موجودگی میں دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما ہوا تو صورتِ حال کو سنبھالنا ممکن نہ رہے گا۔
تین سال قبل بھی ہریانہ اور پنجاب کے ہزاروں کسانوں نے دہلی پہنچ کر اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج کیا تھا۔ پولیس کو بھی تاکید کی گئی ہے کہ انتہائی ناگزیر صورتِ حال ہی میں طاقت استعمال کرے۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجری وال کا کہنا ہے کہ کسانوں کے احتجاج کے باعث دہلی میں عجیب و غریب صورتِ حال ہے۔ مرکزی حکومت کو ان کے مطالبات تسلیم کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہیے تاکہ وہ اپنی اپنی ریاستوں کو واپس جائیں اور دہلی میں صورتِ حال معمول پر آئے۔
واضح رہے کہ اروند کیجری وال نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ مرکزی حکومت بھارتیہ جنتا پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے ان پر دباؤ ڈال رہی ہے۔ مودی سرکار سے کیجری وال کی نہیں بنتی۔ ایسے میں کسانوں کا احتجاج کیجری وال کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں :
ہریانہ و پنجاب کے لاکھوں کسانوں کا ’دہلی چلو‘ مارچ روکنے کی تیاریاں
مودی نے کسانوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے، زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان
دوسری طرف تواتر سے ملنے والی بم دھماکوں کی دھمکیوں نے معاملات کو مزید خراب کردیا ہے۔ بدھ کو ایک شخص نے ای میل کے ذریعے کہا کہ کتنی ہی فورس لگالی جائے اور کتنے ہی وزرا کو بلالیا جائے، ہم جمعرات کو کسی بھی وقت دہلی ہائی کورٹ کو بم سے اڑادیں گے اور یہ دہلی کی تاریخ کا سب سے بڑا دھماکا ہوگا۔ دہلی ہائی کورٹ کی عمارت کو پولیس کی بھاری نفری نے گھیر رکھا ہے۔
دہلی اور ممبئی میں ایک ہفتے کے دوران بم دھماکوں کی متعدد دھمکیاں دی جاچکی ہیں۔ دہلی کے کئی اسکولوں کو خالی کروانا پڑا ہے۔ گزشتہ روس بہار کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کو بھی بم دھماکے کی دھمکی نارمل فون کال اور واٹس ایپ کال کے ذریعے دی گئی۔
ہریانہ اور پنجاب کے ہزاروں کسانوں کے دہلی کی طرف بڑھنے اور بم دھماکوں کی دھمکیوں سے مودی سرکار کے لیے الجھنیں بڑھ گئی ہیں۔
مودی سرکار کا کہنا ہے کہ کسانوں سے بات چیت کے ذریعے معاملات کو جلد از جلد طے کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ مرکزی وزرا ارجن منڈا، پیوش گویل اور نتیانند رائے جمعرات کو کسی وقت احتجاج کرنے والے کسانوں کے قائدین سے وڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے بات چیت کریں گے۔ مودی سرکار بھی چاہتی ہے کہ معاملات جلد از جلد طے پاجائیں تاکہ دہلی میں کسی گڑبڑ سے پہلے ہی کسانوں کا احتجاج ختم ہو۔
Comments are closed on this story.