Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

کیا سندھ میں پیپلز پارٹی کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا؟

پیپلز پارٹی نے اپنے بنیادی نقائص کو دور نہیں کیا تو کوئی بھی جماعت یا گروپ پیپلز پارٹی کا مبتادل بن سکتا ہے
شائع 10 فروری 2024 09:42pm

پاکستان پیپلز پارٹی ایک بار پھر سندھ کی سب سے بڑی جماعت بن کے سامنے آئی ہے، جس نے کراچی اور حیدرآباد کے علاوہ باقی تمام اضلاع سے لگ بھگ تمام سیٹیں جیت لیں۔

تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سندھ میں پیپلز پارٹی کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا؟ اس سوال کا جواب ان انتخابات میں مل گیا ہے، وہ اس طرح کہ گزشتہ انتخابات کی نسبت اس دفعہ پیپلزپارٹی کو سندھ کے لگ بھگ پچاس فیصد حلقوں میں سخت مقابلوں کا سامنا رہا، کوئی منظم مخالف جماعت نہ ہونے اور تمام الیکٹیبلز کو ایڈجسٹ کرنے کے باوجود جیکب آباد، شکارپور، سکھر، گھوٹکی، لاڑکانہ، شہید بے نظیرآباد، خیرپور، میرپور خاص، سانگھڑ، ٹنڈو الہیار، دادو، حیدرآباد اور جامشورو میں بھی پیپلز پارٹی کے کئی امیدوار انتظامی تعاون کے باوجود بڑی مشکل سے اپنی نشستیں بچانے میں کامیاب رہے۔

اسی طرح گھوٹکی اور جیکب آباد میں پارٹی کے اندرونی اختلافات کے باعث تین آزاد امیدواروں نے پیپلز پارٹی کے مضبوط امیدواروں کو ہرادیا۔

دو آزاد ارکان ممتاز جکھرانی کا جام مہتاب ڈہر کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہی رہا ہے، جبکہ گھوٹکی سے کامیاب آزاد رکن نادر اکمل لغاری کی بھی پیپلز پارٹی میں شمولیت متوقع ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو ہرانے والے تینوں آزاد ارکان کو پیپلز پارٹی کے نومنتخب تین ایم این ایز کی مکمل حمایت حاصل رہی۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والے گھوٹکی کے سردار علی گوہر خان مہر نے پی ایس 19 گھوٹکی سے پیپلز پارٹی کے امیدوار اور سابق صوبائی وزیر عبدالباری کی کھل کر مخالفت کی، اور آزاد امیدوار نادر اکمل لغاری کی حمایت کی، جن کا تعلق پنجاب سے ہے، لیکن وہ علی گوہر خان مہر کے پرانے اتحادی رہے ہیں۔

علاقے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ نادر اکمل لغاری سردار مہر کی حمایت کے بغیر انتخاب لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

پی ایس 18 گھوٹکی سے آزاد حیثیت میں جیتنے والے جام مہتاب ڈہر پیپلز پارٹی کے سینیٹر ہیں، وہ اس علاقے سے الیکشن جیتتے رہے ہیں، 2018 میں شہریار مہر نے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر ان کو ہرایا اور بعد میں پی ٹی آئی کے بجائے سندھ اسمبلی میں اس شرط پر پیپلز پارٹی کے حامی بن گئے کہ آئندہ انتخابات میں ان کو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ دیا جائے گا۔

پیپلز پارٹی نے اس حلقے سے ہارنے والے جام مہتاب ڈہر کو اہمیت دی اور سینیٹر بنادیا، اس دفعہ بھی جام مہتاب ڈہر پارٹی ٹکٹ کا تقاضہ کرتے رہے مگر پیپلز پارٹی کی قیادت نے اپنے وعدے کے تحت شہریار شر کو امیدوار بنایا، جس کے بعد جام مہتاب ڈہر نے آزاد الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا، پارٹی رہنماؤں کے گھر پر چل کر آنے کے باوجود انھوں نے اپنا فیصلہ نہیں بدلا اور الیکشن دو ڈھائی ہزار کے مارجن سے جیت لیے۔

جام مہتاب ڈہر کا علاقے میں اپنا بھی اچھا خاصہ اثرورسوخ ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ جام مہتاب پر اپنے اتحادیوں کا بھی الیکشن لڑنے کے لیے دباؤ تھا، دوسری بات یہ کہ پیپلز پارٹی کے نومنتخب ایم این اے میر خالد خان لونڈ نے جام مہتاب ڈہر کی کھل کر حمایت کی، جس کے بدلے جام مہتاب نے بھی قومی اسمبلی کی نشست پر خالد خان کی حمایت کی۔

جیکب آباد کے حلقہ پی ایس 3 سے کامیاب ہونے والے میر ممتاز جکھرانی نومنتخب ایم این اے میر اعجاز جکھرانی کے کزن ہیں، میر اعجاز جھکرانی سابق وفاقی وزیر اور وزیراعلی سندھ کے سابق مشیر ہونے کے ساتھ پیپلز پارٹی لاڑکانہ ڈویژن کے صدر بھی ہیں۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اعجاز جھکرانی کے پورے خاندان نے نہ صرف میر ممتاز جکھرانی کی حمایت کی بلکہ میر اعجاز جکھرانی کے پینل میں شامل پیپلز پارٹی کے صوبائی اسمبلی کے تینوں امیدواروں اورنگزیب خان پنہور، ڈاکٹر سہراب خان سرکی اور شیر محمد مغیری کی کھل کر مخالفت کی، پی ایس ون پر آزاد امیدوار سردار عبدالرزاق کھوسو، پی ایس 2 پر شفیق احمد کھوسو کی بھرپور حمایت کی، تاہم ان کو کامیابی نہ مل سکی۔

اس دفعہ بظاہر لگتا یہی ہے کہ پیپلزپارٹی سندھ کی حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور وفاقی حکومت میں بھی شامل ہوگی، سندھ کے لگ بھگ تمام بلدیاتی ادارے بھی پیپلز پارٹی کے پاس ہیں، ان کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے بیس کیمپ میں نیگیٹو ووٹ بڑھ رہا ہے۔

یہ پیپلز پارٹی کی خوش قسمتی ہے کہ سندھ میں ان کا کوئی بڑا سیاسی حریف نہیں، جی ڈی اے کی طرح کے گروپس صرف الیکشن کے دنوں میں متحرک ہوتا ہے، ملکی سطح کی کی بڑی سیاسی جماعت کے ایجنڈا میں سندھ اور سندھ کے لوگ کبھی رہے ہی نہیں، نہ ہی کسی جماعت نے مستقل مزاجی کے ساتھ سندھ پر توجہ دینے کی کوشش کی ہے، باوجود اس کے کہ سندھ کے لوگ عمومی طور پر سخت گیر مذہبی جماعتوں کو پسند نہیں کرتے، لیکن آٹھ سال کی محنت سے جے یو آئی نے سندھ کے کئی اضلاع میں اچھا خاصہ اسپیس بنالیا ہے، اگر پیپلز پارٹی نے اپنے بنیادی نقائص کو دور نہیں کیا تو کوئی بھی جماعت یا گروپ پیپلز پارٹی کا مبتادل بن سکتا ہے۔

Pakistan People's Party (PPP)

Election 2024

GENERAL ELECTION 2024

Sindh Election Results

Pakistan Elections 2024