دنیا بھر میں پرنٹ میڈیا کو اپنا مزاج بدلنا ہوگا
دنیا بھر میں پرنٹ میڈیا سے محبت کرنے والوں کی تعداد میں کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ امر بھی انتہائی حیرت انگیز ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو پرنٹ میڈیا پر زیادہ بھروسا رکھتے ہیں۔
میڈیا کی دنیا میں رونما ہونے والی حیرت انگیز اور مایوس کن تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے ماہرین کہتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا کا کمزور پڑنا کسی بھی درجے میں غیر متوقع نہیں۔
ٹیکنالوجیز میں پیش رفت نے الیکٹرانک اور آن لائن میڈیا کو غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار کیا ہے۔ یہ ہونا ہی تھا کیونکہ الیکٹرانک اور ڈجیٹل میڈیا نے خبریں بہت تیزی سے لوگوں تک پہنچانا بہت حد تک ممکن بنادیا ہے۔
ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ پرنٹ میڈیا کو الیکٹرانک اور ڈجیٹل میڈیا کے سامنے کیوں لایا جارہا ہے۔ پرنٹ میڈیا کا جو بھی کردار تھا وہ اب تبدیل ہوچکا ہے۔
تیزی کے معاملے میں اخبارات و جرائد کسی بھی درجے میں الیکٹرانک اور ڈجیٹل میڈیا کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ ٹی وی چینل، یو ٹیوب چینل، ویب ٹی وی، ویب سائٹس اور ایسے ہی دیگر آن لائن میڈیا کے ذریعے لوگوں کو بہت کچھ بہت تیزی سے میسر ہے۔ ایسے میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ اخبارات و جرائد ان سے مقابلہ کرسکتے ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پرنٹ میڈیا کو زندہ رہنے کے لیے جو کچھ کرنا ہے اٗس میں اولین ترجیح مزاج کی تبدیلی کو دی جانی چاہیے۔ دنیا بھر میں پرنٹ میڈیا کو زندہ رکھنے کے لیے اُس کا مزاج بہت حد تک تبدیل کیا جاچکا ہے۔
ٹی وی، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کے ذریعے بہت سا مواد تیزی سے تو پھیلایا جاسکتا ہے تاہم وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کچا ہوتا ہے۔ کسی بھی موضوع پر پختہ تر مواد صرف پرنٹ میڈیا کے ذریعے پیش کیا جاسکتا ہے کیونکہ وہاں وقت کی گنجائش رہتی ہے۔ دنیا بھر میں اخبارات و جرائد کا مزاج تجزیاتی ہوتا جارہا ہے۔
ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس کی سی تیزی کا مقابلہ نہ کر پانے کی صورت میں خود کو مسابقت کی دوڑ میں رکھنے کے لیے پرنٹ میڈیا کے پاس اب مواد کی پختگی ہی کا طریق رہ گیا ہے۔ اس راستے پر چل کر وہ خود کو اچھی طرح زندہ رکھ سکتے ہیں۔
عام آدمی کے ذہن میں اب بھی یہ تصور پایا جاتا ہے کہ ٹی وی چینل اور ویب سائٹس وغیرہ کچا مواد پیش کرتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں :
عمران خان کی تقاریر کی میڈیا پر نشریات روکنے کے اقدام لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
مغربی میڈیا نے بھارت کا اصل چہرہ دنیا کو دکھا دیا
مغربی دنیا میں اخبارات و جرائد نے خود کو مضبوط تر بنانے پر بہت محنت کی ہے۔ بہت سے مغربی اخبارات و جرائد اپنے مواد کے مستند ہونے کی بنیاد پر آج بھی دنیا بھر میں غیر معمولی مقبولیت سے ہم کنار ہیں۔ امریکا اور برطانیہ کے بہت سے جوائد آج بھی طویل مضامین شائع کرتے ہیں اور اُنہیں پڑھا بھی جاتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ ترقی پذیر اور پس ماندہ ممالک میں اخبارات و جرائد کو اپنا مزاج بدلنا ہوگا۔ انہیں تیزی اپنانے کے بجائے ٹھہراؤ پر متوجہ ہونا ہوگا۔ ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس جو کچھ بہت تیزی سے پیش کرتے ہیں اُسے جمع کرکے اُس کا تجزیہ کرکے بھرپور سنجیدگی کے ساتھ تیار کیا جانے والا تجزیہ قارئین کو اپنی طرف زیادہ تیزی سے متوجہ کرسکتا ہے۔
Comments are closed on this story.