بھارت میں انتہا پسندی عروج پر، 900 سال پرانا مقبرہ بھی مسمار کردیا گیا
بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انتہا کو پہنچ چکی ہے، ابھی مساجد کے انہدام کا سلسلہ رکا نہیں تھا کہ انتہا پسندوں نے 900 سال پرانا مقبرہ بھی مسمار کردیا۔
ابھی سنجے وان کے اندر تقریباً 600 سال پرانی اخوند جی مسجد کے انہدام کا تنازعہ تھما نہیں تھا کہ بھارتی دارالحکومت نئی دلی کے مہرولی علاقے میں دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ڈی ڈی اے) نے بلڈوز آپریشن میں بابا حاجی روزبیہ کے مقبرے کو بھی مسمار کر دیا۔
بابا حاجی روزبیہ کو دلی کے پہلے صوفی بزرگوں میں شمار کیا جاتا ہے، جن کا مزار وہاں 30 جنوری کو ہٹایا گیا۔
بھارتی اخبار ”ہندوستان ٹائمز“ کے مطابق ڈی ڈی اے کے ایک سینئر اہلکار نے بتایا کہ سنجے وان کے اندر کئی مذہبی ڈھانچوں کو منہدم کیا گیا، جس میں 12ویں صدی کا یہ مقبرہ بھی شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق ڈی ڈی اے کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’رجز مینجمنٹ بورڈ کے مطابق رج ایریا کو ہر قسم کی تجاوزات سے پاک ہونا چاہیے، اس لیے ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے کئی غیر قانونی تعمیرات کا جائزہ لیا۔
مؤرخین نے بھی ڈی ڈی اے کی کارروائی پر سوالات اٹھادئے ہیں۔
دراصل، نیشنل گرین ٹریبونل (این جی ٹی) کو پیش کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان تجاوزات میں کئی منزلہ عمارتیں اور بڑے فارم ہاؤسز شامل ہیں، جو اکثر گھنے جنگلات میں پھیلے ہوئے ہیں۔
متعدد عدالتی احکامات اور مشاہدات کے باوجود حکام نے انہیں ہٹانے کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔
ایسے میں کئی مؤرخین نے اس 900 سال پرانے مقبرے کو منہدم کرنے کی کارروائی پر سوال اٹھائے اور حیرت کا اظہار کیا کہ کیا ایجنسیاں جنگلاتی علاقے میں نئی خلاف ورزیوں کے بجائے پرانی یادگاروں کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
یہ مقبرہ لال کوٹ قلعہ کے دروازے پر تھا۔ اس کا تذکرہ 1922 میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ مولوی ظفر حسن کے ذریعہ شائع کردہ ”محمدی اور ہندو یادگاروں کی فہرست، جلد سوم - ضلع مہرولی“ میں موجود ہے۔
بابا حاجی روزبیہ کو دہلی کے قدیم ترین مشائخین میں شمار کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ رائے پتھورا کے زمانے میں دہلی آئے تھے اور قلعہ کی کھائی کے قریب ایک غار میں اپنی قیام گاہ بنالی تھی۔
اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بابا روزبیہ کے مشورہ سے بہت سے ہندوؤں نے اسلام قبول کیا تھا۔
نجومیوں نے اسے برا شگون سمجھا اور بادشاہ کو بتایا کہ بابا حاجی روزبیہ کی آمد دہلی میں مسلمانوں کی حکومت کی آمد کی پیش گوئی کرتی ہے۔
مقامی لوک داستانوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ رائے پتھورا کی ایک بیٹی نے بھی ان کے ذریعے اسلام قبول کیا تھا اور اسی نے اس کی قبر وہاں بنوائی تھی۔
اے ایس آئی (دہلی سرکل) کے سپرنٹنڈنگ آرکیالوجسٹ پروین سنگھ نے کہا کہ یہ مقبرہ اے ایس آئی کے تحت محفوظ یادگاروں کی فہرست میں نہیں ہے۔ ڈی ڈی اے یا کسی دوسرے ادارے نے اس کے انہدام سے پہلے ہم سے رابطہ نہیں کیا۔
اہم، مشہور مؤرخ اور مصنف رانا صفوی نے ڈی ڈی اے کے اس اقدام پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ سنجے وان کے اندر موجود مذہبی ڈھانچوں کو ’تجاوزات‘ کہنا غلط تھا۔
انہوں نے کہا کہ بابا حاجی روزبیہ کی مزار صدیوں سے یہاں موجود ہے۔ ماضی کی کوئی چیز حال سے کیسے بالاتر ہو سکتی ہے؟ یہ طلبہ، مؤرخین اور دہلی کے لیے بڑا نقصان ہے۔
Comments are closed on this story.