پنجاب کا قومی اسمبلی کا حلقہ جس کے دو علاقے سندھ میں ہیں
قومی اسمبلی کا صوبہ پنجاب سے ایک حلقہ ایسا بھی ہے جس کے دو علاقے صوبہ سندھ میں واقع ہیں اور اس کے نتیجے میں ایک دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی ہے۔ بظاہر سندھ میں بیٹھے ووٹرز پنجاب سے رکن اسمبلی کو منتخب کریں گے۔
قومی اسمبلی کا یہ حلقہ این اے 174 ہے جو پنجاب کے ضلع رحیم یار کی تحصیل صادق آباد میں واقع ہے۔
عام طور پر حلقہ بندیوں کے دوران کئی طرح کے اعتراضات سامنے آتے ہیں جن میں سب سے بڑا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ حلقوں کے سرحدیں ایسی نہ بنائی جائیں کہ ووٹرز اور امیدواروں کو رسائی میں کوئی مشکل پیش آئے۔
تاہم این اے 174 کے دو علاقے نہ صرف باقی انتخابی حلقے سے علیحدہ ہیں بلکہ ان دو علاقوں اور باقی حلقے کے درمیان صوبائی سرحد بھی حائل ہے۔
لیکن یہ صورتحال محض حلقہ بندیوں کے سبب پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کا تعلق سندھ اور پنجاب کے درمیان صوبائی سرحدوں سے بھی ہے۔
سندھ کے شمالی حصے میں ماچھکہ نامی کا علاقہ انتظامی لحاظ سے سندھ کا حصہ نہیں بلکہ پنجاب کے ضلع رحیم یار خان میں شامل ہے۔ ماچھکہ کے ایک طرف سندھ کا ضلع کشمور ہے اور دوسری طرف جیکب آباد۔ باقی اطراف سے یہ علاقہ سندھ کے ضلع گھوٹکی سے گھرا ہے۔
یہاں دو یونین کونسلیں ماچھکہ اور کھروڑ ہیں جن کی آبادی ایک لاکھ ہے۔ یہ آبادی انتظامی لحاظ سے پنجاب کا حصہ ہے۔
انتظامی تقسیم کی بنیاد پر ہی ان دو علاقوں کو پنجاب سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 174 کا حصہ بنایا گیا ہے۔
ان دو علاقوں کے لیے ماچھکہ میں پولیس اسٹیشن ماچھکہ قائم ہے جب کہ دیگر چوکیاں بھی موجود ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے جب 2023 میں حلقہ بندیاں کی تو این اے 174 کی حلقہ بندی کے ساتھ ڈپٹی کمشنر رحیم یار خان نے سرٹیفکیٹ دیا کہ تمام قانون گو حلقے، پٹوار خانےا ور موضع/دیہہ اس حلقے میں شامل کر لیے گئے ہیں اور کوئی ریونیو یونٹ باہر نہیں چھوڑا گیا۔
رحیم یار خان کے سندھ میں موجود ان دو ٹکڑوں کو جنہیں انگریزی میں enclave کہا جاتا ہے کے حوالے سے یہ پیچیدگی صرف الیکشن تک محدود نہیں۔ ماضی میں عبادت کے حوالے سے بھی سوالات پیدا ہو چکے ہیں۔
چند برس قبل یہ بات سامنے آئی تھی کہ یہاں میانی کُنڈی والا گاؤں کی عیدگاہ سندھ میں ہے جبکہ عیدگاہ کا محراب پنجاب میں ہے۔
اس کے نتیجے میں نماز عید کے دوران نمازی سندھ میں اور پیش امام پنجاب میں کھڑے ہوتے تھے۔
انڈیپینڈنٹ اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق مقامی صحافی محمد بخش گھُنیو نے بتایا کہ ’بعد میں گاؤں والوں نے سوچا کہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، جس کے بعد پیش امام کو کہا گیا کہ وہ دو قدم پیچھے کھڑے ہوں، جس کے بعد اب جماعت اور پیش امام دونوں ہی سندھ میں نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔‘
Comments are closed on this story.