سرکاری ملازمین کو قرضوں کی فراہمی میں قواعد کی خلاف ورزیوں کا انکشاف
سرکاری ملازمین کو قرضوں کی فراہمی میں قواعد کی خلاف ورزیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ جس کے بعد آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے سفارشات بھی پیش کی ہیں۔
سرکاری ملازمین کو میرٹ سے ہٹ کر قرضوں کی فراہمی کے معاملے پر صدر مملکت کے خط پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے طویل مدتی قرضوں پر ایک خصوصی تحقیق کی جس میں قرضوں کے موجودہ نظام میں خامیوں اور قواعد کی خلاف ورزیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
تحقیق کے مطابق ہارڈ شپ کیسز میں ہارڈ شپ کمیٹی کی منظوری کے بغیر قرضے دیے جا رہے ہیں، 2015 میں فنانس ڈویژن اور اے جی پی آر معیار تیار کرنے میں ناکام رہے، کچھ معاملات میں، ملازمین کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا گیا۔
آڈیٹر جنرل کی تحقیق سے پتہ چلا کہ درخواست دینے کی تاریخ پر ہی انہیں فنڈ کی دستیابی کے سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے، فہرستیں متعلقہ ویب پیجز پر آویزاں نہیں کی جاتی، موٹر کار ایڈوانس کیسز میں 25 فیصد کے بجائے 56 فیصد فنڈز ترجیحی طور پر جاری کیے گئے، قرضوں کے معاملات میں سنیارٹی لسٹوں پر عمل نہیں کیا گیا۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے خط میں سرکاری ملازمین کو قرضے دینے میں میرٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے قرضوں کے موجودہ نظام کا جائزہ لینے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
عارف علوی نے کہا تھا کہ قرض کے لیے دو الگ الگ فہرستیں ”باقاعدہ“ اور ”ترجیحی“ فہرست مرتب کی جارہی ہیں۔
یاد رہے کہ یہ معاملہ مختلف سرکاری افسران، اداروں کی طرف سے دائر کی گئی اپیلوں کی سماعت کے دوران سامنے آیا۔
شکایت کنندگان نے ترجیحی سلوک اور میرٹ کی خلاف ورزی کے واقعات رپورٹ کئے تھے۔
جنرل فنانشل رولز کی خلاف ورزی میں کچھ سرکاری ملازمین کو قرضے جاری کیے گئے۔
اس حوالے سے صدر مملکت نے کہا تھا کہ مختلف وزارتوں کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسرز اپنی صوابدید پر ملازمین کی فہرستیں اے جی پی آر کو بھیجتے ہیں، ملازمین کو باری سے پہلے دیے گئے قرضے شکایات اور قانونی چارہ جوئی کا باعث بن رہے ہیں۔
صدر مملکت کے خط پر آڈیٹر جنرل نے طویل مدتی قرضوں پر ایک خصوصی تحقیق کی۔ جس میں موجودہ قواعد و ضوابط کی عدم پابندی کی وجہ سے خلاف ورزیوں کی نشاندھی کی گئی ہے۔
تحقیق میں قرضوں کی فراہمی کے مروجہ نظام میں بہتری کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔
خزانہ ڈویژن نے 2015 میں قرضوں کی فراہمی کیلئے اے جی پی آر کی مشاورت سے ایک طریقہ کار وضع کیا تھا۔ کل مختص رقم میں سے، 10 فیصد ہارڈشپ، 25 فیصد ترجیحی، اور عام انتظار کے لیے 75فیصد فنڈ مختص کئے جانے تھے۔
قواعد کے تحت ہارڈ شپ کیسز کے لیے ایک معیار ، کیسز کا فیصلہ دو رکنی ہارڈ شپ کمیٹی نے کرنا تھا شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنائے کیلئے اے جی پی آر اور فنانس ڈویژن کے ویب پیجز پر فہرستیں آویزاں ہونا تھیں۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی سفارشات
-
ہارڈ شپ فہرست کی موجودگی میں علیحدہ سے ترجیحی فہرست کی ضرورت نہیں۔
-
ہارڈ شپ کے کیسز کے لئے 10فیصد کوٹہ کی سختی سے پیروی کی جانی چاہیے۔
-
ہارڈ شپ معاملات پر سختی سے کمیٹی کی سفارشات کے مطابق کارروائی کی جانی چاہیے۔
-
سرکاری ملازمین کو قرضوں کی فراہمی کے لیے مناسب اصول و ضوابط بنائے جانے چاہئیں۔
-
معلومات تک رسائی کے لیے اے جی پی آر کی ویب سائٹ پر فہرستیں آویزاں کرنے کی ضرورت ہے۔
-
قرض کے کیسوں کی پروسیسنگ میں کم از کم تین ماہ کے انتظار کی مدت ضروری ہے۔
-
تمام کیسز کو مینوئل پروسیسنگ کے بجائے سیپ کے ذریعے پراسیس کرنے کی ضرورت ہے۔
Comments are closed on this story.