پاکستانی الیکشن میں دھاندلی کا امکان واضح، پھر بھی امریکا خاموش ہے، ٹائم
امریکا کے معروف ہفت روزہ ”ٹائم“ نے خصوصی مضمون میں لکھا ہے کہ پاکستان کے عام انتخابات میں کھلی اور واضح دھاندلی کی راہ ہموار کی جارہے مگر امریکا حیرت انگیز طور پر خاموش اور لاتعلق ہے۔
جریدہ لکھتا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے عدالتی کارروائی بند کمرے میں کی گئی۔ عوام اور میڈیا میں سے کسی کو آنے نہیں دیا گیا۔ عمران کے وکلا کی ٹیم کو بھی روکا گیا اور جج نے دو سرکاری وکلا کو عمران خان کی معاونت کے لیے متعین کیا۔ یہ سب کچھ ایسا نہیں کہ سمجھ میں نہ آسکے۔
عمران خان کی بہن علیمہ خان کہتی ہیں کہ عدالتی فیصلوں پر عمران خان کو محض ہنسی آگئی۔ اور ہو بھی کیا سکتا تھا؟ مگر سچ یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ اس بات پر ہنس نہیں رہے۔ ملک میں اس وقت انتخابات کا ماحول ہے۔
عمران خان پر 180 الزامات کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ گویا ملک کے مقبول ترین لیڈر کی اقتدار میں دوبارہ واپسی کی راہ مکمل طور پر مسدود کردی گئی۔ پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاری، رہنماؤں کا وفاداری بدلنا، بلے کے نشان کا ضبط کرلیا جانا مخالفین کے میدان کُھلا چھوڑنے کے سوا کیا ہے؟
ہیومن رائٹس واچ میں ایشیائی امور کی ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر پیٹریشیا گوزمین کہتی ہیں کہ پاکستان میں عام انتخابات کسی بھی حوالے سے شفاف دکھائی نہیں دے رہے۔ اس کے باوجود امریکا متوجہ نہیں۔ یہ بہت حیرت انگیز ہے۔ امریکی قیادت عمران خان کو سنائی جانے والی سزاؤں کے حوالے سے بالکل خاموش ہے۔
جریدہ لکھتا ہے کہ پاکستان مختلف حوالوں سے امریکا کے لیے اہم ہے۔ دونوں کی اسٹریٹئجک پارٹنر شپ بھی ہے۔ ایسے میں متعدد خرابیوں سے آلودہ پاکستان امریکی قیادت کے لیے دردِ سر بھی بن سکتا ہے جبکہ غزہ کی صورتِ حال کے باعث مشرقِ وسطیٰ میں صورتِ حال بہت خراب ہے۔
جریدہ مزید لکھتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور جو بائیڈن سے عمران کی نئی نبھی۔ اس پالیسی سے دونوں ممالک کے تعلقات میں سرد مہری در آئی۔ عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے امریکا کو موردِ الزام ٹھہرایا جس سے معاملات مزید بگڑے۔
بھارت سے بھی عمران خان نے معاندانہ رویہ رکھا۔ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو نسل پرست اور ہندو بالا دستی کا علم بردار قرار دیا۔ عمران خان کی پالیسی نے کشمیر پر ایک اور جنگ کی راہ تقریباً ہموار کر ہی دی تھی۔
ان تمام باتوں سے بڑھ کر عمران خان کی راہ مسدود کرنے والا معاملہ یہ رہا کہ انہوں نے روس اور چین سے تعلقات بہت زیادہ بڑھائے اور روس کی طرف غیر معمولی جھکاؤ کا مظاہرہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں :
پاک امریکا تعلقات کے 75 برس مکمل ہونے پر یادگاری ٹکٹ جاری
گزشتہ سال پاک امریکا تعلقات کی صحیح طاقت سامنے آئی، امریکا
اقتدار میں دوبارہ آنے سے عمران خان کو روکے جانے کی کوشش پر امریکا کو بظاہر کچھ کہنے اور کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس نہیں ہو رہی کہ پاکستان میں اقتدار درحقیقت فوج کے ہاتھ میں ہے۔ وہی کنگ میکر ہے۔ یہی سبب ہے کہ جو بائیڈن نے صدر کا منصب سنبھالنے کے بعد عمران خان کو کال کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی اور براہِ راست پاکستانی آرمی چیف سے رابطہ رکھا۔
آرمی چیف کی تعیناتی کے مسئلے پر بھی عمران خان نے جو رویہ اختیار کیا اُس نے انہیں فوج کے لیے مزید ناقابلِ قبول بنادیا۔
Comments are closed on this story.