Aaj News

جمعرات, ستمبر 19, 2024  
14 Rabi ul Awal 1446  

عالمی معاشی بحران نہ آنے پر ماہرین معاشیات تنقید کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں؟

ماہرین معاشیات کو کمفرٹ زون سے نکل کر بہت سے عوامل کو ذہن نشین رکھتے ہوئے کام کرنا ہوگا، ناقدین کا مشورہ
شائع 04 فروری 2024 03:52pm

دنیا بھر میں معاشی اور معیشتی امور کے ماہرین کو اپنی پیش گوئیوں کے غلط ثابت ہونے پر تنقید کا سامنا ہے۔ افراطِ زر کی شرح، گلوبل سپلائی چین میں خلل واقع ہونے اور کساد بازاری سے متعلق پیش گوئیاں غلط ثابت ہو رہی ہیں۔ ماہرین نے معیشتی امور میں جن خرابیوں کا اندیشہ ظاہر کیا تھا وہ تو واقع نہیں ہوئیں اور بہتری ضروری دکھائی دی ہے۔

کورونا کی وبا کے ختم ہونے کے بعد روس اور یوکرین کی جنگ اور اب غزہ کی صورتِ حال کے باعث مشرقِ وسطیٰ میں رونما ہونے والی سیاسی و معاشی خرابیوں نے معاشی امور کے ماہرین کے لیے نمایاں قطعیت کے ساتھ پیش گوئیاں کرنا انتہائی مشکل بنادیا ہے۔

گزشتہ ماہ سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیووس میں ماہرینِ معیشت پر تنقید کرنے والوں میں یورپی سینٹرل بینک کی صدر کرسٹین لاگارڈے بھی شامل ہوگئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیشتر معاشی ماہرین قبائلی دور کی ذہنیت کے ساتھ جی رہے ہیں۔ وہ اب بھی بہت تنگ پیرایوں میں رہتے ہوئے سوچتے ہیں۔

کرسٹین لاگارڈے کا یہ بھی کہنا تھا کہ ماہرینِ معیشت اپنی تحقیق اور غور و فکر کے ذریعے ٹھوس رائے قائم کرنے کے بجائے ایک دوسرے کی باتیں چراکر قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔

کرسٹین لاگارڈے فرانس کی وزیر خزانہ اور بین الاقوام مالیاتی فنڈ کی سربراہ رہ چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ماہرینِ معیشت اپنے کمفرٹ زون سے باہر نہیں نکلتے۔ وہ لگی بندھی اور نپی تُلی رائے دیتے ہیں اور اس میں بالعموم کوئی بنیادی تبدیلی نہیں کرتے۔

آئی این جی بینک میں چیف یورو زون اکنامسٹ پیٹر وینڈن ہاؤٹے کا کہنا ہے کہ ماہرینِ معیشت لگی بندھی سوچ کے حامل ہیں۔ وہ ایک خاص حد تک جاتے ہیں اور پھر واپس آجاتے ہیں۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں کہ دنیا بہت بدل چکی ہے۔

کرسٹین لاگارڈے اور امریکی مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول کی پیش گوئی تھی کہ کورونا کی وبا کے بعد بحالی کے مرحلے میں اور پھر یوکرین پر روسی لشکر کشی کے باعث دنیا بھر میں افراطِ زر کی شرح بڑھے گی تاہم یہ عبوری مدت کے لیے ہوگا۔ رفتہ رفتہ افراطِ زر کی شرح کم ہوجائے گی مگر ان کی بات غلط ثابت ہوئی۔

دنیا بھر میں مرکزی بینکوں کو بڑھتی ہوئی قیمتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے سود کی شرح بڑھانا پڑے گی۔ چند ماہ کے دوران قیمتیں ٹھنڈی پڑچکی ہیں۔ پالیسی سازوںنے شرحِ سود کو بلند رکھا ہے کیونکہ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ رواں سال شرحِ سود میں کٹوتی کی گنجائش ہے بھی یا نہیں۔

کرسٹین لاگارڈے کہتی ہیں کہ معاشی معاملات میں پیش گوئی کرتے وقت بہت سے اہم عوامل کو ذہن نشین نہیں رکھا گیا۔

پیٹر ویندن ہاؤٹے کا کہنا ہے کہ معیشتی امور کے ماہرین کوئی بھی پیش گوئی کرتے وقت جو ماڈلز ذہن نشین رکھتے ہیں وہ زیادہ قابلِ اعتماد نہیں اور دوسرے بہت سے عوامل ایسے جنہیں سمجھنا اور آپس میں جوڑ کر دیکھنا دشوار ہے۔ انہوں کورونا کی وبا کے دوران بعد سپلائی چین میں رونما ہونے والے خلل، افرادی قوت کی کمی اور سیاسی و سفارتی کشیدگی کا خاص طور پر حوالہ دیا۔

ایلیانز ٹریڈ سے وابستہ ماہرِ معاشیات میگزم ڈرمیٹ کہتے ہیں کہ معاشی ماڈل ناکامی سے دوچار نہیں ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماہرینِ معاشیات کے تصورات ناکافی اور ناکام رہے ہیں۔ وہ اپنی خیالی دنیا میں رہتے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ تصور بسا رہتا ہے کہ جو دنیا اُن کے ذہن میں پائی جاتی ہے اُس میں کچھ بھی غلط نہیں ہو رہا۔

مرکزی بینکوں نے معیشتوں کو بہت زیادہ گرم ہونے سے روکنے کے لیے سود کی شرح بلند کرنے کا حربہ استعمال کیا۔ اس پر ماہرینِ معیشت نے خبردار کیا کہ ترقی یافتہ دنیا میں ترقی کی شرح تیزی سے گرے گی اور 2023 میں سکڑاؤ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔

2023 کے دوران، ماہرینِ معاشیات کی پیش گوئیوں کے برعکس، امریکا میں شرحِ نمو بلند ہوئی اور معیشتی بحالی کا عمل بہت حد تک خوش گوار رہا۔ دوسری طرف جرمنی کے سوا یورو زون میں مجموعی طور پر معاشی نمو کی رفتار خاصی سست رہی۔

پرنسٹن یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر ایلن بلنڈر کہتے ہیں کہ افراطِ زر کی شرح کا بلند نہ ہونا بجائے خود ایک معمہ ہے۔

امریکا میں جو کچھ ہو رہا تھا اس کے نتیجے میں کساد بازاری کی پیش گوئی کے سوا چارہ نہ تھا۔ تمام اشاریے انتہائی مایوس کن تھے۔ ایک بار پھر ماہرینِ معاشیات پر انتہائی تنگ نظر ہونے کا الزام عائد کیا گیا۔ پیٹر وینڈن ہاؤٹے کہتے ہیں کہ ماہرینِ معاشیات کے ناکام ہونے کی بنیادی وجوہ میں کمزور معیار کا ڈیٹا اور رائے عامہ کے جائزوں کے ریسپانس کی گرتی ہوئی شرح بھی نمایاں تھی۔

مارکیٹ سیکیورٹیز موناکو سام کے ڈائریکٹر جنرل کرسٹوفر بیراڈ کہتے ہیں کہ اس حقیقت کو نظر انداز کردیا گیا ہے کہ بیشتر معاملات میں صَرف کو بڑھانے میں بچتوں نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

معاشیات میں نوبیل انعام حاصل کرنے والے ایستھر ڈفلو نے اے ایف پی کو ایک حالیہ انٹرویو میں بتایا کہ جن پروفیشنلز پر بھروسا کیا جاتا ہے کہ ان میں ماہرینِ معاشیات سب سے آخر میں کھڑے ہیں۔ ان سے زیادہ تو لوگوں کو موسم کی پیش گوئی کرنے والوں پر بھروسا ہے۔ اب چند ماہرینِ معاشیات نے اپنے آپ کو بدلنا شروع کیا ہے۔

افراطِ زر کی شرح کے بلند ہونے کا اندازہ لگانے میں غلطی پر تنقید کا سامنا کرنے کے بعد جولائی 2023 میں بینک آف انگلینڈ نے امریکی مرکزی بینک فیڈرل ریزرو کے سابق چیئرمین بین برنینکے کی خدمات حاصل کیں تاکہ پیش گوئی کے عمل میں پائی جانے والی خامیاں دور کی جاسکیں۔

اپنی اصلاح پر مائل ہوکر بینک آف کینیڈا نے بھی معاشی امور سے متعلق پیش گوئیوں کا اپنا نظام بہتر بنایا ہے۔ پرانے ماڈل چھوڑ کر ایسے طریقے اپنائے گئے جن میں دور اندیشی پائی جاتی ہے۔ پیٹر وینڈن ہاؤٹے کہتے ہیں کہ سبھی یہ جانتے ہیں کہ معاشی پیش گوئی کے پرانے ماڈل اب کارگر نہیں رہے۔ ان میں کمزوریاں بھی ہیں اور کمی بھی۔ اس حوالے سے غور و فکر کی ضرورت ہے تاکہ متعلقہ عوامل کو قبول کرنے کی ذہنیت کو پروان چڑھایا جاسکے۔