عمران خان کا 342 کا بیان کیا ہے؟
ماہر قانون وقاص ابریز کا کہنا ہے کہ 342 کا بیان دراصل ملزم کا بیان ہے، جس میں ملزم اگر اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتا ہے تو کہ سکتا ہے۔
ملزم کا بیان زیر دفعہ 342 ض ف قلمبند کرتے ہوئے عدالت خود ملزم سے سوالات کرتی ہے اور ملزم خود ان سوالات کا جواب دیتا ہے۔
اس حوالے سے پراسیکوٹر یا کونسل مستغیث کا سوالنامہ تیار کر کے دے دینا اور کونسل ملزم کا ان کے جوابات تیار کر کے دے دینا دفعہ 342 ض ف کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سائفر کیس کی سماعت کی اور عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو 10، 10 سال قید بامشقت کی سزائیں سنائیں۔
بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے بیانات کی کاپی حاصل کی، شاہ محمود قریشی نے خود جوابات لکھوائے۔
بانی پی ٹی آئی کا 342 کا بیان کمرہ عدالت میں ریکارڈ کیا گیا۔
جج ابوالحسنات نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی روسٹرم پر آ جائیں۔
جس پر بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں آرہا ہوں جلدی تو آپ کو ہے، ہم نے تو جیل میں ہی رہنا ہے۔
جج نے بانی پی ٹی آئی سے استفسار کیا کہ 342 کے بیان پر دستخط کریں گے؟ جس پر عمران خان نے کہا کہ مجھے پہلے بتائیں یہ ہوتا کیا ہے۔
جج ابو الحسنات نے کہا کہ قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ کو سوالوں کے جواب دینے کا موقع دے رہا ہوں۔
بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ میں اپنا جواب خود لکھوانا چاہتا ہوں۔ جس پر جج نے کہا کہ اچھی بات ہے آپ اپنا جواب خود لکھوائیں۔
Comments are closed on this story.