سائفر کیس سماعت کے دوران جج کی عمران خان سے بدتمیزی، شاہ محمود نے فائل پھینک ماری
راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کے دوران شاہ محمود قرشی اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کی جج ابوالحسنات ذوالقرنین کے ساتھ بدتمیزی کا واقعہ پیش آیا ہے۔
آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سائفر کیس کی سماعت شروع کی تو اس دوران وکلاء صفائی کورٹ روم میں موجود نہیں تھے۔
جج ابوالحسنات ذوالقرنین وکلاء کی غیرحاضری پر برہمی کا اظہار کیا اور وکلاء صفائی کو تیسری بار حاضری یقینی بنانے کی مہلت دے دی۔
دوران سماعت بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی نے سرکاری وکلاء صفائی پرعدم اعتماد لا اظہار کردیا۔
اس دوران کسی بات پر شاہ محمود قُریشی نے اسٹیٹ ڈیفنس کونسل سے فائل چھین کر دیوار پر مار دی، جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے شاہ محمود قریشی کی بدتمیزی پر انہیں وارننگ دی۔
عمران خان نے جسٹس ابوالحسنات ذوالقرنین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جن وکلا پر ہمیں اعتماد ہی نہیں وہ کیا ہماری نمائندگی کریں گے، جج صاحب یہ کیا مذاق چل رہا ہے؟ تین ماہ سے کہہ رہا ہوں وکلاء سے ملنے کی اجازت دی جائے، بار بار درخواست کے باوجود اجازت نہیں دی جارہی، مشاورت کے بغیر تو کیس نہیں چل سکتا۔
جس کے بعد جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے بھی بانی پی ٹی آئی تلخ لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ جتنا آپ کو ریلیف دیا جا سکتا تھا میں نے دیا، وزرش کے لیے سائیکل کی فراہمی یا پھر وکلاء سے ملاقات، آپ کی درخواست منظور کی، میرے ریکارڈ پر 75 درخواستیں ہیں جو ملاقاتوں سے متعلق ہیں۔
جس پر عمران خان نے کہا کہ آپ نے تو ملاقات کا آرڈر کیا لیکن ملاقات کرائی نہیں گئی، اوپن ٹرائل میں کسی کو جیل آنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔
اس موقع پر شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ادھر بھی سرکار ادھر بھی سرکار یہ مذاق ہو رہا ہے۔
جس پر جج نے کہا کہ شاہ محمود قریشی صاحب، اگر آپ خود جرح کرنا چاہتے ہیں تو آپ خود بھی کر سکتے ہیں، تین مرتبہ تاریخ دی مگر آپ کے وکلاء نے آنے کی زحمت نہیں کی۔
شاہ محمود نے کہا کہ یہ سرکاری ڈرامہ نہیں چلے گا، اس طرح سے ٹرائل کی کیا ساکھ رہ جائے گی۔
جج نے جواب دیا کہ میرے لیے آسان تھا میں ڈیفنس کا حق ختم کر دیتا، میں نے پھر بھی اسٹیٹ ڈیفنس کا حق دیا، اس کسٹڈی کی وجہ سے مجھے یہاں جیل آنا پڑ رہا ہے، وہ بھی تو کسی ماں کے بچے ہیں جن کے کیس جوڈیشل کمپلیکس میں چھوڑ کر آیا ہوں، میں آرڈر کر کر کے تھک گیا ہوں مگر آپ کے وکیل نہیں آتے، سپریم کورٹ نے حکم نامے میں کہا تھا اگر ٹرائل میں رکاوٹیں آتی ہیں تو عدالت ضمانت کینسل کر سکتی ہے۔
شاہ محمود نے جج ابو الحسنات کی بات پر کہا کہ سپریم کورٹ کے ضمانت کے فیصلے کا بھی مذاق اڑایا گیا، جیل سے باہر نکلتے ہی ایک اور کیس میں اٹھا لیا گیا۔
جج نے استفسار کیا کہ شاہ صاحب اس کیس کو لٹکانے کا کیا فائدہ ہے؟
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ جج صاحب جیل میں کوئی خوشی سے نہیں رہتا، میں اپنا وکیل پیش کرنا چاہتا ہوں سرکاری وکیلوں پر اعتبار نہیں، اس پر جج نے کہا کہ آپ اپنے وکیل کو بلا لیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پراسیکیوشن کے نامزد کردہ وکیلوں سے ڈیفنس کروایا جا رہا ہے، اس سے تو ثابت ہوتا ہے کہ فیصلہ ہمارے خلاف ہوچکا۔
شاہ محمود قریشی نے فرمائش کی کہ میری بات بیرسٹر گوہر سے کرائی جائے۔ جس پر عدالت نے انہیں بیرسٹر گوہر سے بات کرنے کی اجازت دے دی۔
اس کے بعد بانی پی ٹی آئی نے بھی اپنے وکیل سکندر ذوالقرنین سے بات کرنے کی اپیل کی جس پر جج نے پولیس کو بانی پی ٹی آئی کی وکیل سے بات کرانے کا حکم دیا۔
عدالت نے سماعت کے دوران مزید 9 گواہان پر جرح مکمل ہونے پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
Comments are closed on this story.