فاطمہ بھٹو نے بھارتی ستاروں کو آڑے ہاتھوں لے لیا
گزشتہ روز بھارتی شہر ایودھیا میں تاریخہ بابری مسجد کی جگہ تعمیر کیے جانےوالے رام جنم بھومی مندر کی افتتاحی تقریب میں بالی ووٖڈ کے بڑے نام پورے جوش وخروش کے ساتھ شریک ہوئے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے ہاتھوں سرانجام پانے والی اس تقریب میں امیتابھ بچن، رنبیر کپور، عالیہ بھٹ، کترینہ کیف، وکی کوشل ، جیکی شروف، چرنجیوی ، مادھوری ڈکشٹ، روہت شیٹی ،راج کمارہیرانی ،آیوشمان کھرانہاور پروڈیوسر مہاویر جین سمیت بھارتی سنیما کی نامور شخصیات نے شرکت کی۔
بالی ووڈ ستاروں کے اس ’اجتماع‘ کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پوتی اور معروف مصنفہ فاطمہ بھٹو کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
تقریب میں مشہور شخصیات کی ایک تصویر شیئر کرنے والی فاطمہ بھٹو نے بالی ووڈ کو ایک ’ کمزور اور ہمت کی کمی کا شکا انڈسٹری’ قرار دیا۔ ابری مسجد کے انہدام کا جشن منانے کے اس اقدام کی مذمت کرنے والی فاطمہ بھٹو نے بھارتی حکمراں جماعتطبی جے پی کی ’نفرت انگیز سیاست‘ کی حمایت کرنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
فاطمہ بھٹو نے ایکس پوسٹ میں لکھا کہ، ’بابری مسجد کے انہدام کا جشن منانے اور بی جے پی کی نفرت انگیز سیاست کو خوش کرنے کے لیے سیلفیاں کھینچتے ہوئےستاروں کو دیکھنا تکلیف دہ ہے۔‘
این ڈی ٹی وی کے مطابق اس تقریب میں ہیما مالنی، رجنی کانت، پون کلیان، شنکر مہادیون، مدھر بھنڈارکر، سبھاش گھئی، شیفالی شاہ، وپل شاہ، رندیپ ہودا، لیش رام، آدی ناتھ منگیشکر، انو ملک اور سونو نگم بھی اس موقع پر موجود تھے۔
بالی ووڈ انتہا پسند نکلا، رام مندر کے افتتاح کے لیے تمام بڑے ستارے پہنچ گئے
نریندر مودی نے 11 دن کا روزہ ختم کرکے رام مندر کا افتتاح کیا
اکشے کمار اور ٹائیگر شروف جو شرکت نہیں کرپائے تھے، ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے اپنی خواہشات کا اظہار کیا۔
مسلمانوں کی تعمیر کردہ صدیوں پرانی تاریخی مسجد کو گرا کر رام مندر کی تعمیر بھارتی انتہا پسندی کی مثال تو ہے ہی لیکن معروف شخصیات کی ایسے سیاسی نظریات کے ساتھ وابستگی ان کی ذمہ دارحیثیت پر سوال اٹھاتی ہے۔
بابری مسجد کا پس منظر
1528ء میں مغل دور حکومت میں بھارت کے موجودہ شہر ایودھیا میں بابری مسجد تعمیر کی گئی جس کے حوالے سے ہندو دعویٰ کرتے ہیں کہ اس مقام پر رام کا جنم ہوا تھا اور یہاں مسجد سے قبل مندر تھا۔
برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کے لیے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔
بی جے پی کے رہنما ایل کے ایڈوانی نے 1980 میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کی تحریک شروع کی تھی۔
1992 میں ہندو انتہا پسند پورے بھارت سے ایودھیا میں جمع ہوئے اور ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی میں 6 دسمبر کو سولہویں صدی کی یادگار بابری مسجد کو شہید کر دیا جب کہ اس دوران 2 ہزار کے قریب ہلاکتیں ہوئیں۔
حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کے لیےکئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔
بھارتی سپریم کورٹ نے 9 نومبر 2019کو بابری مسجد کیس پر فیصلہ سناتے ہوئے مسجد ہندوؤں کے حوالے کردی اور مرکزی حکومت ٹرسٹ قائم کرکے مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا حکم دے دیا جب کہ عدالت نے مسجد کے لیے مسلمانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے کا بھی حکم دیا۔
Comments are closed on this story.