گزشتہ تین دہائیوں میں نوازشریف نے بہترین معیشت سنبھالی: بلوم برگ
امریکی خبر رساں ادارے ”بلومبرگ“ کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی حکومت نے گزشتہ تین دہائیوں میں پاکستان کی معیشت کو سنبھالنے میں اپنے حریفوں کے مقابلے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
اس ہفتے شائع ہونے والے ایک تجزیے میں پاکستان کے لیے ایک مصائب کے انڈیکس (مہنگائی اور بے روزگاری کی شرحوں کو ملا کر پیدا ہونے والی معیشت کی حالت کے ایک غیر رسمی پیمانہ) کا استعمال کرتے ہوئے بلومبرگ اکنامکس نے پایا کہ نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ں) نے عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سے بہتر کارکردگی دکھائی۔
گزشتہ تین دہائیوں میں نواز شریف اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان مسلم لیگ (ن) نے چار بار حکومت کی۔ بھٹو خاندان کی پیپلز پارٹی نے تین بار اقتدار سنبھالا ہے، جب کہ عمران خان اپریل 2022 میں ختم ہونے والی حکومت میں چار سالہ مدت کے لیے عہدے پر تھے، جنہیں پارلیمانی عدم اعتماد کے ووٹ میں اقتدار سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ’بلومبرگ اکنامکس نے 1990 کے بعد سے ملک پر حکمرانی کرنے والی ہر ایک بڑی سیاسی پارٹی کے دور اقتدار میں انڈیکس کی اوسط قدروں کا استعمال کیا۔ زیادہ قدر شہریوں کے لیے زیادہ معاشی مشکلات کی نشاندہی کرتی ہے‘۔
پاکستان کے لیے بلومبرگ اکنامکس مسری انڈیکس کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نے 14.5 فیصد، پاکستان تحریک انصاف کو 16.1 فیصد اور پاکستان پیپلز پارٹی نے 17.2 فیصد اسکور کیے ہیں۔
حالیہ گیلپ رائے شماری کے مطابق اعلیٰ مصائب کے اشاریہ کے باوجود، عمران خان کی پارٹی اب بھی مقبول ترین سیاست دان ہے، جس کی درجہ بندی 57 فیصد ہے جبکہ شریف کی ریٹنگ گزشتہ چھ ماہ میں 36 فیصد سے بڑھ کر 52 فیصد ہو گئی ہے۔
بلومبرگ اکنامکس کے انکور شکلا نے رپورٹ میں لکھا، ’عوام شاید نواز شریف کو شک کا فائدہ دے رہے ہوں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’انتخاب جیتنے والی کسی بھی پارٹی کے لیے آگے کی راہ آسان نہیں ہوگی، کیونکہ مہنگائی ریکارڈ بلندی کے قریب ہے اور بے روزگاری بھی بڑھ گئی ہے‘۔
پاکستان میں افراط زر کی شرح 30 فیصد کے قریب ہے، گزشتہ سال کرنسی ایشیا کی بدترین کارکردگی تھی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی ہوئی ہے۔
ملک اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے مالیاتی بیل آؤٹ پر انحصار کر رہا ہے، اور فنڈ کی شرائط کے تحت، نئی حکومت کو ایسی پالیسیاں نافذ کرنے کی ضرورت ہوگی جو ووٹرز میں غیر مقبول ہوں، جیسے کہ سبسڈی واپس لینا اور ٹیکس بڑھانا۔
آئی ایم ایف کو توقع ہے کہ پاکستان کی معیشت گزشتہ سال کے معاہدے کے بعد رواں مالی سال میں 2 فیصد بڑھے گی۔
Comments are closed on this story.