Aaj News

پیر, دسمبر 23, 2024  
20 Jumada Al-Akhirah 1446  

شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کا فیصلہ محفوظ

فیض حمید نے الزامات پر جواب جمع کرادیا
اپ ڈیٹ 23 جنوری 2024 02:24pm

سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہوئیکورٹ کے برطرف جج شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پر سماعت ہو ئی جس میں فیض حمید، شوکت عزیز صدیقی اور بار کونسل کے وکلاء نے دلائل دیے، جس کے بعد عدالت نے شوکت عزیز برطرفی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

لارجر بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال الدین مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس عرفان سعادت شامل ہیں۔

سپریم کورٹ نے مقدمے کے فریقین کو نوٹس جاری کر رکھا ہے۔

گزشتہ روز سابق آئی ایس آئی چیف جنرل (ر) فیض حمید نے اس حوالے سے سپریم کورٹ میں جواب جمع کرایا تھا، جس میں انہوں نے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کے شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کو مسترد کیا تھا۔

فیض حمید کے علاوہ سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کانسی نے بھی جواب جمع کرایا اور شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کو مسترد کر دیا۔

بریگیڈیئر (ر) عرفان رامے نے بھی اپنے جواب میں شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تردید کی ہے۔

سماعت شروع ہوئی تو خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟

خواجہ حارث نے بتایا کہ میں فیض حمید اورعرفان رامے کا وکیل ہوں۔

وسیم سجاد نے بھی بتایا کہ میں سابق چیف جسٹس ہاٸیکورٹ انور کانسی کا وکیل ہوں۔

دوران سماعت شوکت صدیقی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ میرے معاملے کی فیٸر انکواٸری ہونی چاہیے، سپریم جوڈیشل کونسل صدر پاکستان کو بنا انکواٸری کوٸی رپورٹ پیش نہیں کرسکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل سے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل پر الزام کیا ہے؟ جس پر حامد خان نے کہا کہ میرے اوپر تقریر کرنے کا الزام ہے، سپریم کورٹ میرے خلاف حکم کو ختم کرے۔

چیف جسٹس نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ آپ الزامات کو تسلیم کرتے ہیں یا مسترد؟

خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے تمام الزامات کومسترد کیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سابقہ رجسٹرار نے جواب جمع کروادیا ہے، اب مقدمہ کی کارروائی کو کیسے آگے بڑھایا جائے؟

وکیل حامد خان نے کہا کہ آنے والے جوابات سے میرا کیس واضح ہو گیا، کونسل نے کوئی انکوائری نہیں کی تھی، انکوائری ہوتی تو گواہان پیش ہوتے جرح کی اجازت دی جاتی، آرٹیکل 209 (6) کے تحت کونسل صدر کو بغیر تحقیقات مجھے ہٹانے کی سفارش نہیں کر سکتی تھی، کونسل کا شوکت صدیقی کو ہٹانے کا حکم کالعدم کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ سمجھ لیں اگر آپ کے عاٸد الزامات درست نہیں تو کیا ہوگا؟ عدالت کو دیکھنا ہوگا کہ کون سچ بول رہا ہے کون نہیں، سپریم جوڈیشل کونسل نے ہوسکتا ہے کہ انکواٸری نہ کی ہو، اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ فیکچوئل انکوائری ہی نہیں ہوئی تھی، اب سپریم کورٹ کا یہ پانچ رکنی بنچ کیسا فیصلہ دے سکتا ہے، ہم ایک سکے کو ہوا میں پھینک کرفیصلہ نہیں کر سکتے، اگر الزامات سچ ثابت نہیں ہوتے تو کیا ہوگا، اس کے بغیر ہم کس طرف جا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان کیسز کے زریعے مثال قائم کرنا چاہتے ہیں، الزامات پبلکلی لگائے گئے، اگر الزامات غلط ثابت ہوتے ہیں انکوائری کے بعد تو کیا جج کو ہٹانے کا فیصلہ برقرار رہے گا؟ ہم نے جن پر الزامات لگایا گیا ان کو فریق بنانے کا کہا، سچ کی کھوج کون لگائے گا اب، ہم مسئلے کا حل ڈھونڈ رہے ہیں۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ شوکت صدیقی کے خلاف پہلی کارروائی کو کالعدم قرار دیا جائے، اس کے بعد اس معاملے پر کمیشن بنا کر انکوائری کرائی جائے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا یہ معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو واپس بھیجا جا سکتا ہے؟ جس پر وکیل حامد خان نے کہا کہ جی معاملہ واپس کونسل کو بھیجا جا سکتا ہے۔

حامد خان نے کہا کہ ہمارا کیس یہ ہے سپریم جوڈیشل کونسل کو پہلے انکوائری کروانا چاہیے تھی، انکوائری میں ہمیں فیض حمید پر جرح کا موقع ملتا۔

چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا انکوائری کی گئی تھی؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب شوکت صدیقی نے تقریر تسلیم کرلی تھی تو انکوائری نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کہہ چکے حقائق کی انکوائری نہیں ہوئی، اب بتائیں کیا تجویز کرتے ہیں، کارروائی کیسے آگے چلائیں، ہمیں اس کیس میں کوئی حل تجویز کریں۔

حامد خان نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی غیرقانونی قرار دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر شوکت صدیقی کے الزامات سچے نہیں تو کیا ہوگا؟ شوکت صدیقی جو کہہ رہے ہیں مخالف فریق اسے جھٹلا رہے ہیں، کون سچا ہے کون نہیں یہ پتا لگانے کیلئے کیا کرنا ہوگا؟ انکوائری میں اگر ثابت ہو آپ کے الزامات درست ہیں کیا پھر بھی عہدے ہٹایا جاسکتا ہے؟ ہمیں مسئلے کا حل بھی ساتھ ساتھ بتایا جائے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سمجھ لیں الزامات درست ہیں، لیکن ایک جج کیلٸے مناسب تھا کہ ایسے بیان دیتے؟ آپ تقریر سے تو انکاری نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کسی جج کو ایسی تقریر کرنے کی اجازت ہے؟

حامد خان نے کہا کہ تقریر سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تقریر بھی دو طرح کی ہوتی ہیں، جج پر تقریر کرنے پر پابندی نہیں ہے، ایسا ہوتا تو بار میں تقاریر پر کئی ججز فارغ ہوجاتے، مسئلہ شوکت عزیز صدیقی کی تقریر میں اٹھائے گئے نکات کا ہے، برطانیہ میں ججز انٹرویو بھی دیتے ہیں، امریکہ میں سپریم کورٹ ججز مباحثوں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔

چیف جسٹس سے سوال کیا کہ کیا عدالت خود اس معاملے کی تحقیقات کر سکتی ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کے خلاف کارروائی کالعدم قرار دیں تو یہ آپ کے الزامات کو درست ماننے جیسا ہوگا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ شوکت صدیقی اب جج نہیں ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل میں اب ان کا معاملہ نہیں بھیجا جاسکتا، اس وقت کے چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے الزامات کی تردید کی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں کیسے کہہ سکتا ہوں چیف جسٹس سچے تھے اور یہ چونکہ سادہ جج تھے سچے نہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کو کیس آئینی طور پر ریمانڈ ہوسکتا ہے؟

خواجہ حارث نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی ریٹائر ہوچکے، اب بطور جج بحال نہیں ہوسکتے، سپریم جوڈیشل کونسل اب شوکت صدیقی کا معاملہ نہیں دیکھ سکتی۔

وکیل خواجہ حارث کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ’شوکت عزیز صدیقی کی اپنی تقریر ہی کافی ہے کہ انھوں نے مس کنڈکٹ کا مظاہرہ کیا، تقریر میں عدلیہ کی تضحیک کی گئی۔‘

اس پر ریمیرکس دیتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’تقریر کر کے کیسے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی، متعلقہ شق دکھائیں، آپ ججز کا کوڈ آف کنڈکٹ پڑھ لیں، تقریر کو پبلسٹی نہیں بلکہ نشاندہی کرنے والے کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر ایک ادارے میں کرپشن ہو تو کسی جج کو کیا کرنا چاہیے۔‘

اس پر خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ’اسے اپنے چیف جسٹس کو بتانا چاہیے۔‘

ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’کسی چیف جسٹس کی بات تسلیم کرنے اور کسی جج کی بات تسلیم نہ کرنے کا کوئی معیار تو ہونا چاہیے۔ قوم اب کافی کچھ برداشت کر چکی ہے۔ ہماری تشویش ادارے کی ساکھ سے متعلق ہے۔ قوم کو سچ کا علم ہونا چاہیے۔ کیا آپ نہیں چاہتے سچ سامنے آنا چاہیے؟ ہم کارروائی کو کیسے آگے بڑھائیں؟‘

وکیل سابق ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے۔‘

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ’قوم کو بھی پتہ چلنا چاہیے الزامات سچے ہیں یا جھوٹے، ادارے لوگوں کی خدمت کیلئے ہوتے ہیں۔‘

خواجہ حارث نے کہا کہ فیض حمید پر تقریر میں کوئی الزام لگایا گیا نہ سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے، جوڈیشل کونسل نے کہا شوکت عزیز صدیقی نے عدلیہ کو بے توقیر کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کی بے توقیری کا معاملہ کہاں سے آگیا؟

خواجہ حارث نے کہا کہ جج کو پبلک میں جا کر تقریر نہیں کرنی چاہیے تھی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت صدیقی پر ضابطہ اخلاق کی کس شق کی خلاف ورزی کا الزام لگا؟

خواجہ حارث نے کہا کہ جج کو عوامی اور سیاسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی نے شہرت حاصل کرنے کیلئے تو تقریر نہیں کی ہوگی۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ شوکت صدیقی کے تمام الزامات مفروضوں پر مبنی ہیں، سپریم جوڈیشل کونسل کا فیصلہ آچکا اب معاملہ ختم ہوچکا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بطور قوم ہم نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا ہے، عوام کو حقائق اور سچائی کا پتا چلنا چاہیے، اس کیس میں اداروں کی ساکھ کا مسئلہ ہے، اگر شوکت صدیقی کے الزامات غلط ہیں تو معاملہ ختم، سچائی کا پتا لگانا ہوگا کیونکہ جس پر الزامات ہیں وہ بڑے ادارے کے عہدیدار تھے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ اس معاملے پر ازخود نوٹس لے کر تحقیقات کرا سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ بتائیں اس کیس میں کیا کرنا چاہیے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر تو شوکت صدیقی کے الزامات کی انکوائری نہیں ہوئی توغلط ہے، الزامات غلط ہوں تو جج کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے، ججز کی ریٹائرمنٹ کے بعد کارروائی نہ کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا ہے، سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت نے اپیل دائر کی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس اپیل کو نمبر لگ چکا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی اپیل پر نمبر نہیں لگا آج شاید لگ جائے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وفاقی حکومت کی اپیل کو شوکت عزیز صدیقی کیس کے ساتھ یکجا کر کے سنا جائے، اس کیس میں ایک ادارے پر سنگین الزامات لگائے گئے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ عافیہ شہر بانو کیس کا فیصلہ واپس ہونا چاہیے، عدالت شوکت عزیز صدیقی کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج دے، شوکت صدیقی کی اپیل منظور کرتے ہوئے معاملہ جوڈیشل کونسل کو بھیجا جاسکتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ عافیہ شہر بانو کیس پر نظرثانی کرے، میری استدعا ہے کہ اس کیس کو بھی عافیہ شہر بانو کیس کے تناظر میں دیگر کیسز کے ساتھ منسلک کیا جائے۔

سابق چیف جسٹس انورکاسی کے وکیل وسیم سجاد نے کہا کہ مکمل حقائق نہیں دیکھے میرے خیال میں کونسل یہ معاملہ دیکھ سکتی ہے۔

وکیل حامد خان نے کہا کہ یہ تاریخ میں پہلا کیس ہے کہ بغیر انکوائری جج کوفارغ کیا گیا ہے، کسی شخص نے شوکت عزیز صدیقی کے خلاف شکایت نہیں کی۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ جب ایک جج کی تقریر واضح ہے اور موجود ہے کیا پھر بھی انکوائری کی ضرورت ہے؟ شوکت عزیز صدیقی پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں۔

حامد خان نے کہا کہ شوکت عزیز صدیقی کے کیس میں انکوائری لازم ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ شوکت صدیقی کے خلاف شکایت کسی نے کی یا رجسٹرار نے خود سب کچھ کونسل کو بھیجا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شوکت عزیز صدیقی نے تقریر میں کہا کیا تھا؟ جس پر وکیل حامد خان نے شوکت عزیز صدیقی کی تقریر پڑھ کر سنائی۔

حامد خان نے کہا کہ جب ہمارے خلاف کارروائی ہوئی اس وقت سابق چیف جسٹس انور کاسی کے خلاف بھی کارروائی چل رہی تھی، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کاسی کے خلاف جوڈیشل کونسل میں کارروائی چل رہی تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ انور کاسی کا معاملہ شوکت عزیز صدیقی کیس سے کیسے جوڑ رہے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ہائیکورٹ ہمارے خلاف گواہ بن گئے تھے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ شوکت صدیقی کیس میں سپریم کورٹ نے خود نوٹس لیا، کیا جب کونسل ازخود کارروائی کرے تو بھی انکوائری کرنا ہوگی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ کونسل نے خود کیسے کارروائی کا آغاز کیا ہمیں رجسٹرار آفس کا نوٹ دکھائیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ سیکرٹری کونسل کیسے شکایت کنندہ ہوسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ہوسکتا ہے کونسل نے ہی سیکرٹری کونسل کو کہا ہو۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا شوکت عزیز صدیقی پر فرد جرم عائد ہوئی تھی؟

ھامد خان نے کہا کہ شوکاز دیا گیا تھا لیکن فرد جرم عائد نہیں ہوئی تھی، سپریم جوڈیشل کونسل میں سابق چیف جسٹس انور کاسی کے خلاف بھی کارروائی جاری تھی، جسٹس فرخ عرفان کیس میں انور کاسی کی جوڈیشل کونسل میں شمولیت پر اعتراض بھی کیا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کونسل ارکان کے خلاف اعتراض دائر کرنا تاخیری حربہ بھی ہوسکتا ہے۔

حامد خان نے کہا کہ انور کاسی کے خلاف بھی انکوائری ہو رہی تھی اس لئے ان پر اعتراض کیا گیا تھا، انور کاسی نے شوکت صدیقی کے خلاف بیان دیا تو انہیں اپنے کیس میں کلین چٹ مل گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مفروضوں پر بات نہ کریں یہ آرٹیکل 184/3 کا کیس ہے۔

جسٹس عرفان سعادت نے کہا کہ شوکت صدیقی کے خلاف کارروائی دو ماہ چلی، جواب بھی جمع کرایا گیا، یہ کہنا درست نہیں کہ شوکت صدیقی کو صفائی کا موقع نہیں دیا گیا، شوکت صدیقی نے دو جوابات بھی جمع کرائے تھے۔

حامد خان نے کہا کہ کونسل کی کارروائی کھلی عدالت میں کرنے کی استدعا کی جو تسلیم نہیں کی گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ تقریر کو تسلیم کیا گیا پھر صرف یہ دیکھنا تھا کہ یہ مس کنڈکٹ تھا یا نہیں، شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات جوڈیشل کونسل کیسے کر سکتی تھی۔

حامد خان نے کہا کہ جب شوکت صدیقی کے الزامات آئے تو جسٹس انور کاسی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی جاری تھی، شوکت صدیقی کے الزامات مسترد کرنے پر انور کانسی کو بری کر دیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان صاحب ہم سپریم جوڈیشل کونسل پر ایسے انگلیاں نہیں اٹھائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایک مضبوط آئینی باڈی ہے، آپ کہہ رہے تھے انکوائری کمیشن بنا دیں جوڈیشل کونسل کی موجودگی میں کمیشن بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ آرٹیکل 210 پڑھیں تو سپریم جوڈیشل کے پاس وسیع آئینی اختیارات ہیں، ہر آئینی باڈی یا ادارے کے پاس آزادانہ فیصلے کا حق ہے، سپریم کورٹ سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی آئینی ادارے کی نگران نہیں ہے، سپریم کورٹ صرف آئینی خلاف ورزی کی صورت میں حرکت میں آسکتی ہے، موجودہ کیس میں بہت محتاط چلنا ہوگا کہ کہیں اداروں کے درمیان قائم آئینی توازن خراب نہ ہو، شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ بھی 50 سال تک عدالتی نظیر کے طور پر استعمال ہوسکتا ہے۔

بار کونسل کے وکیل صلاح الدین نے شوکت صدیقی کیس جوڈیشل کونسل کو واپس بھینے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ شوکت صدیقی ریٹائرڈ ہوچکے ہیں، سپریم کورٹ شوکت صدیقی کی اپیل کا خود جائزہ لے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صلاح الدین صاحب آپ کہہ رہے کہ قوم کو اندھیرے میں رکھا جائے، جج کی حد تک فیصلہ کیسے دیں اس کے الزامات کے بارے میں بھی توعوام کو پتا چلنا چاہیے، صلاح الدین صاحب آپ معاملہ جوڈیشل کونسل کو ریمانڈ بیک کرنے کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کہتے ہیں شوکت صدیقی کے الزامات پر الگ سے انکوائری ہوسکتی ہے، اگر الزامات غلط ثابت ہوئے تو نتیجہ کیا ہوگا؟ کیا سپریم جوڈیشل کونسل کا کالعدم شدہ فیصلہ بحال ہوجائے گا؟

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ الزامات غلط ثابت ہوئے تو شوکت صدیقی کے خلاف فوجداری کارروائی ہوسکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے بغیر سابق جج کے خلاف فوجداری کارروائی کیسے ممکن ہے؟ جس پر بیرسٹر صلاح الدین بولے ججز قانون سے بالاتر نہیں ہوتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ عدالت کوئی بھی انکوائری کمیشن کیسے قائم کرسکتی ہے؟ کیا ججز کی قسمت کا فیصلہ ایس ایچ او کے ہاتھ میں دے دیں؟ مجھے تو یہ دلیل سمجھ نہیں آرہی، کچھ آگے بڑھنے والی بات کریں، مناسب ہوگا اپنے نکات تحریری طور پر دیں۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ریٹائرڈ جج کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صرف ایک نکتے کا جائزہ لے رہے ہیں کہ انکوائری کیوں نہیں ہوئی تھی، ہم پرانے کورس کو درست کر رہے ہیں، اگر آپ ایک جج کی ذاتی حیثیت میں پینشن بحالی چاہتے ہیں تو پھر آپ کی 184 تین کی درخواست خارج کر دیتے ہیں، کیا آپ کی درخواست سے مفاد عامہ کا معاملہ طے ہوگا؟ کیا ایک جج کے پینشن بحالی سے عدلیہ کی آزادی بحال ہو جائے گی؟

فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ نے دلائل سننے کے بعد شوکت عزیز صدیقی برطرفی کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ تمام فریقین کے وکلاء تحریری معروضات جمع کرا سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ضرورت سمجھی تو کیس دوبارہ سماعت کیلئے بھی مقرر کرسکتے۔

چیف جسٹس پاکستان نے آج کی سماعت کا حکمنامہ لکھواتے ہوئے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید اور برگیڈیئر ریٹائرڈ عرفان رامے کو نوٹس دیا گیا، خواجہ حارث پیش ہوئے اور جوابات جمع کرائے، جوابات میں الزامات کا جواب دیا گیا، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے بھی اپنا جواب جمع کرایا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تحریری جوابات جمع کرانے کیلئے کتنا وقت درکار ہے، شہرت کیلئے تقریر کی گئی یا نہیں یہ الزام بھی ہے۔

حکمنامہ میں کہا گیا کہ شوکت صدیقی کی برطرفی کے خلاف اپیل پرفیصلہ محفوظ کررہے ہیں۔

عدالت نے وکلاء سے سوالات پر تحریری جوابات طلب کرلیے۔

عدالت نے سوال اٹھایا کہ کیا انکوائری کے بغیر جج کو برطرف کیا جا سکتا ہے؟ کیا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجا جا سکتا ہے؟ کیا تقریر کا مس کنڈکٹ تسلیم کرلینے پر انکوائری کی ضرورت باقی تھی؟

معاملہ ہے کیا؟

شوکت صدیقی نے سپریم جوڈیشل کونسل کے ان کے برطرفی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔

شوکت صدیقی کو ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں جولائی 2018 میں کی جانے والی ایک تقریر کے باعث برطرف کیا گیا تھا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اس اپیل پر 14 دسمبر کو پہلی سماعت کی تھی جو کہ سپریم کورٹ سے براہ راست نشر کی گئی تھی۔

اس کیس کی سماعت کرنے والے بینچ میں جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس حسن اظہر رضوی،جسٹس عرفان سعادت بھی شامل ہیں۔

SUPREME COURT OF PAKISTAN (SCP)

DG ISI Faiz Hameed

justice shaukat aziz siddiqui