ایک کیس میں گرفتار ملزم دیگر مقدمات میں بھی گرفتار تصور ہوگا، پشاور ہائیکورٹ
سابق سپیکر اسد قیصر کا ایک سے زائد مقدمات میں گرفتاری کیس میں پشاور ہائیکورٹ نے 28 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ فیصلے میں عدالت نے قرار دیا کہ ایک کیس میں گرفتار ملزم دیگر درج تمام مقدمات میں بھی گرفتار تصورہوگا۔ شہری کی ایک مقدمے میں گرفتاری اسی مدت میں درج تمام مقدمات میں تصور ہوگی۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ محمد ابراہیم خان اور جسٹس اشتیاق ابراہیم پرمشتمل 2 رکنی بینچ نے سابق اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، مجاہد علی اور پی ٹی آئی کے دیگر ممبران اسمبلی کا کیس پر 19 دسمبر کو فریقین کے دلائل سننے کے بعد درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ایک کیس میں گرفتاری کے بعد اس وقت موجود مقدمات میں علیحدہ گرفتاری نہیں ہوسکتی، سپریم کورٹ فیصلے سے واضح ہے کہ کسی ملزم کی گرفتاری کے وقت درج تمام مقدمات میں گرفتاری تصور ہوگی۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ گرفتاری ایک صوبے کے تمام مقدمات میں تصور ہوگی۔یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ درج مقدمات میں ضمانت حاصل کرنے والے کو بار بار گرفتار کریں، اسد قیصر کے خلاف درج تمام مقدمات کی تفصیل بھی فراہم کی جائے۔
اسد قیصر و دیگر کیخلاف مقدمات کی تفصیل سے متعلق محفوظ فیصلہ سنا دیا گیا
اس سے قبل پشاور ہائیکورٹ نے اسد قیصر سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف مقدمات کی تفصیل سے متعلق کیس کا محفوظ کیا گیا فیصلہ سنا دیا۔
چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس محمد ابراہیم خان اور جسٹس اشتیاق ابراہیم نے سماعت کی۔
عدالت نے اپنے محفوظ فیصلے میں کہا ہے کہ ایک کیس میں ملزم گرفتار ہو تو باقی درج مقدمات میں بھی گرفتار تصور ہو گا۔
پی ٹی آئی رہنماؤں کی ایک کیس میں ضمانت ملنے کے بعد دوسرے مقدمے میں گرفتاریوں کا سلسلہ جاری تھا جس کے خلاف سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر سمیت پی ٹی آئی کے دیگر رہنماوں نے پشاور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔
پشاور ہائیکورٹ نے کیس بیرسٹر عامر چمکنی اور شبیر حسین گگیانی ایڈووکیٹ کو بطور عدالتی معاونین مقرر کیا تھا۔
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ابراہیم خان اور جسٹس اشتیاق ابراہیم خان نے 19 دسمبر کو فریقین کے وکلاء، ایڈووکیٹ جنرل عامر جاوید اور عدالتی معاونین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
آج عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے حکم دیا کہ گرفتاری کے وقت ملزم کے خلاف موجود تمام مقدمات میں گرفتاری تصور ہوگی اور ایسا نہیں ہوگا کہ اسی مخصوص کیس میں گرفتاری تصور ہوگی بلکہ اس وقت جتنے بھی مقدمات موجود ہوں گے ان سب میں گرفتاری ڈالی جائے گی، کیس کا تحریری فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
فیصلے کے بعد قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کے بعد ایک کیس میں ضمانت ملنے کے بعد اس وقت موجود مقدمات میں گرفتاری اب نہیں ہوسکے گی بلکہ گرفتاری توہین عدالت کے زمرے میں آئے گی تاہم ضمانت کے بعد اگر کوئی نیا مقدمہ درج ہوتا ہے تو اس صورت میں گرفتاری ہوسکتی ہے۔
Comments are closed on this story.