مشرق وسطیٰ امریکا کے ہاتھ سے نکل گیا، برطانوی اخبار
معروف برطانوی اخبار دی گارجین کے لیے ایک تجزیے میں سائمن ٹزڈل نے لکھا ہے کہ یمن کی حوثی ملیشیا کے خلاف امریکا نے کارروائیاں تو کی ہیں مگر اس کا زور توڑنے میں ناکام رہا ہے۔ اس وقت زمینی حقیقت یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ امریکا کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
ایران نے چند برسوں میں ترجیحات تیزی سے تبدیل کی ہیں۔ وہ تیزی سے بدلتی ہوئی زمینی حقیقتوں سے مطابقت رکھنے والی پالیسیاں ترتیب دے رہا ہے۔ خطے میں اپنی پوزیشن زیادہ مضبوط بنانے کے لیے ایرانی قیادت نے چین اور روس سے دوستی اور اشتراکِ عمل کو نمایاں ترین ترجیحات میں شامل کیا ہے۔ چین اور روس سے قربت، دوستی اور اشتراکِ عمل نے ایران کے لیے پرکشش امکانات پیدا کردیے ہیں۔
سائمن ٹزڈل نے لکھا ہے کہ حوثی ملشیا کے مقابل امریکی فوجی کارروائی کے غیر موثر رہنے کو مشرق وسطیٰ میہں مغرب کی ناکام پالیسیوں کا منطقی نتیجہ تصور کیا جائے گا۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان تصفیہ کرانے میں مغرب کی ناکامی اب عالمی سیاست و معیشت پر بری طرح اثر انداز ہو رہی ہے۔
بحیرہ احمر میں یمن کی ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے حملوں کے جواب میں امریکا کا طاقت کے استعمال پر مجنبور ہونا اس بات کی واضح ترین علامت ہے کہ امریکا اور یورپ اب سفارت اور سیاست کے محاذ پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے ان کی گھٹتی ہوئی طاقت معاملات کو انتہائی خرابی کی طرف لے جارہی ہے۔
حوثی ملیشیا کی طرف سے حملے جاری رکھنے کا اعلان امریکا کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ اگر امریکی فوج حوثی ملیشیا کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی تو اس سے اس کے سپر پاور کے اسٹیٹس کو شدید دھچکا لگے گا۔
سائمن ٹزڈل نے مزید لکھا ہے کہ اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس خطے میں طاقتور ترین ملک امریکا، سعودی عرب یا اسرائیل نہیں بلکہ ایران ہے اور وہ حوثی ملیشیا، حزب اللہ اور حماس کے ذریعے مغربی قوتوں کو تشویش میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
اسٹریٹجک نقطہ نظر سے بھی ایران کی پوزیشن دن بہ دن مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ فلسطینیوں کی شہادت کا سلسلہ جاری رہنے سے ایران علاقائی معاملات کو تادیر اپنے ہاتھ میں رکھنے کے قابل ہوسکے گا۔
Comments are closed on this story.