مشرق وسطی جنگ پھیلنے سے عالمی معاشی بحالی کی امیدیں ٹوٹ گئیں، ورلڈ بینک ماہرین
عالمی بینک نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں پہنچنے والے نقصان کے بعد عالمی معیشت کی بحالی کا معاملہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ پھیلنے سے کھٹائی میں پڑگیا ہے۔
غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی اور بحیرہ احمر میں حوثی ملیشیا کے حملوں سے عالمی تجارتی جہاز رانی کو پہنچنے والے نقصان کے حوالے سے عالمی بینک نے کہا ہے کہ عالمی معیشت کی بحالی کی امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔
برطانوی اخبار کے مطابق عالمی بینک نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں توانائی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور دوسری طرف مہنگائی بڑھتی جارہی ہے جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر شرحِ نمو متاثر ہو رہی ہے۔ عالمی تجارت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی ہونے سے معاملات مزید بگڑ رہے ہیں۔
بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں پر حملوں کے جواب میں یمن میں حوثی ملیشیا کے ٹھکانوں پر امریکا اور برطانیہ کی بمباری کے حوالے سے برطانوی وزیر اعظم رشی سونک پیر کو دارالامرا اور دارالعوام میں پالیسی بیان دینے والے ہیں۔
عالمی بینک کے معاشی ماہرین نے کہا ہے کہ بحیرہ احمر کی صورت حال نے معاملات کو زیادہ بگاڑ دیا۔ عالمی معیشت کی بحالی میں دشواریوں کا سامنا پہلے بھی تھا مگر اب امیدیں دم توڑ رہی ہیں۔
توانائی کا عالمی بحران سر اٹھاتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ بحیرہ احمر میں حوثی ملیشیا کے حملوں سے تجارتی جہاز رانی متاثر ہو رہی ہے اور خصوصی طور پر تیل بردار جہازوں کے لیے متبادل راستے اختیار کرنے سے ترسیل میں تاخیر ہو رہی ہے۔ درجنوں ممالک کو توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔
عالمی بینک کےماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں بلند شرحِ سود سے معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ افراطِ زر کی بلند ہوتی ہوئی شرح عام آدمی کی مشکلات بڑھا رہی ہے۔ بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے اور دوسری طرف جیو پالیٹکل سطح پر غیر یقینیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے کیمپ ڈیوڈ جاتے ہوئے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ یمن میں حوثی ملیشیا کے ٹھکانوں پر حملوں کے ذریعے ہم نے ایران کو پیغام دے دیا ہے کہ ہم مکمل تیاری کی حالت میں ہیں۔
یہ بھی پڑھیں :
عالمی معیشت کا ایک تہائی حصہ کُساد بازاری کا شکار ہو سکتا ہے، آئی ایم ایف
عالمی معاشی بحران سے نمٹنے کےلئے 650 ارب ڈالرز کا فنڈ منظور
امریکا اور برطانیہ میں یہ انتخابات کا سال ہے۔ امریکی صدر بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم رشی سونک کو قانون سازوں کے سامنے جواب دینا پڑے گا کہ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے ان کے پاس کیا منصوبہ ہے۔
دونوں ممالک کے قانون ساز جاننا چاہتے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں لڑائی کا دائرہ وسیع ہونے کی صورت میں ان کی حکومتیں کیا کریں گی اور عالمی معیشت کی بحالی ممکن بنانے کے حوالے سے کیا کرسکیں گی۔
واضح رہے کہ امریکی صدر کو کانگریس میں اپنی پارٹی کے بہت سے ارکان کی طرف سے غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائی کی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔
کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے کانگریس کے رکن رو کھنہ نے کہا ہے کہ امریکی صدر کا یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے خلاف کارروائی سے قبل کانگریس سے اجازت لینا لازم تھا۔
عالمی معیشت کی بحالی کے امکانات سے متعلق عالمی بینک کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق معاشی تعاون و ترقی کی تنظیم (OECD) کے سابق چیف اکنامسٹ جان لیویلن کہتے ہیں کہ مشرقِ وسطٰیٰ کی لڑائی دردِ سر بن کر سامنے آئی ہے۔ کشیدگی بڑھنے سے عالمی معیشت کی بحالی کی راہ میں حائل دیواریں مزید بلند ہوگئی ہیں۔ عالمی تجارت میں کم و بیش 30 فیصد تک رخنہ پڑنے کا خدشہ ہے۔ بحیرہ احمر میں پیدا ہونے والی خرابی آبنائے ہرمز اور دیگر آبی راستوں تک پہنچ گئی تو عالمی معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
Comments are closed on this story.