پاکستان کا فتح دوم میزائل بھارتی میزائل دفاع نظام کیلئے خطرہ بن گیا، غیرملکی جریدہ
کینیڈین سے شائع ہونے والے بھارتیوں کے ایک جریدے نے اعتراف کیا ہے کہ پاکستان کا فتح دوم میزائل بھارت کے جدید ترین ایس 400 میزائل دفاعی نظام کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گیا ہے۔
پاکستان نے حال ہی میں مقامی طور پر تیار کردہ فتح دوم میزائل کا تجربہ کیا تھا۔ جب کہ روس نے ایس 400 میزائل دفاعی نظام روس سے انتہائی مہنگے داموں خریدا ہے اور دنیا میں چند ہی ممالک کے پاس یہ نظام ہے۔
یوریشئن ٹائم جس کے مدیران کا تعلق بھارت سے ہے، نے لکھا کہ فتح دوم 400 کلومیٹر کی متاثر کن رینج رکھتا ہے اور یہ زمین کے قریب رہ کر پرواز کرتا ہے۔
جریدے نے لکھا کہ فتح دول پہلے کے راکٹس کے مقابلے میں اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں جدید ترین فلائٹ کنٹرول ٹیکنالوجی اور پاتھ فائنڈنگ نظام موجود ہے، جس میں سٹیلائیٹ اور غیرمتحرک نیوی گیشن نظاموں کو یکجا کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں یہ میزائل ٹھیک ٹھیک نشانہ لگا سکتا ہے اور غلطی کا امکان 10 میٹر سے بھی کم رہ جاتا ہے۔
یوریشیئن ٹائم نے لکھا کہ 400 کلومیٹر کے فاصلے سے اہداف کو ٹھیک ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت کے سبب فتح دوم دور مار آرٹلری کے میدان میں بہت بڑی پیشرفت فراہم کرتا ہے۔
جریدے کے مطابق فوجی ماہرین اسے ’فلیٹ ٹریجیکٹری میزائل‘ قرار دے رہے ہیں جسے ریڈار پر دیکھنا مشکل ہے۔
یوریشیئن ٹائمز نے کہا کہ فتح دوم کے کامیاب تجربے کے بعد بین الاقوامی ماہرین اور پاکستانی ذرائع ابلاغ نے کہاکہ یہ بھارت کے ایس 400 میزائل دفاعی نظام کا توڑ ہے جب کہ کئی ماہرین سمجھتے ہیں کہ بھارت کو روکنے کیلئے فتح دوم اہم کردار کر سکتا ہے۔
اسلام آباد میں قائم سیکورٹی فورم گلوبل ڈیفنس انسائٹ کے عمیر اسلم کا یوریشیئن ٹائمز سے گفتگو کرتے ہئوے کہنا تھا کہ یہ میزائل پلوں اور ایئر ڈیفنس یونٹوں جیسے اسٹریٹجک اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
واشنگٹن کے سٹمسن سینٹر تھنک ٹینک سے وابستہ فرینک اوڈونل کا کہنا تھا کہ فتح دوم کی تیاری سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان آذربائیجان آرمینا اور روس یوکرائن جیسی جنگوں پر نظر رکھے ہوئے ہے اور وہاں سے سیکھ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ وہ میدان جنگ میں ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کا کام آرٹلری اور ڈرونز کے سپرد کرکے اپنے طیاروں کو زیادہ اہم مشنز کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
دفاعی تجزیہ کار پٹریشیا کا البتہ کہنا تھا کہ فتح دوم کی میزائل ٹریجکٹری کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں جب کہ یوکرائن کے تجربات کے بعد روس اپنے ایس 400 نظام کو اپ گریڈ کر سکتا ہے تاہم سوال یہ ہے کہ وہ ایسے اپ گریڈز بھارت کو بھی مہیا کرے گا یا نہیں۔
Comments are closed on this story.